کیل (آئبیکس)

گزشتہ کالم (کچھ باتیں قومی جانور کے متعلق) میں مارخور کے متعلق لکھ چُکا تھا ۔سب سے پہلے آج کے کالم کی توسط سے وزیر اعلی کے مشیر وزیر زادہ صاحب کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ مارخور اور کیل کے تحفظ کے لئے قانون سازی کریں ۔قانون سازی کی مدد سے محکمہ وائلڈ لائف کی ری سٹرکچرنگ کریں تاکہ محکمے کو منظم اور مربوط کیا جا سکے ورنہ محکمے میں موجود کالی بھیڑیں اسی طرح قانونی شکنی کرنے والوں سے اس طرح نرمی کرتے رہیں گے. یہی حالات ریے تو ہمارے پلے کچھ نہیں ہوگا ۔یہاں باہر سے کوئی شکار کےلئے کوئی نہیں آئے گا اور ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہمارے پسماندہ علاقے کی وقعت بھی کم ہوتی رہے گی. اردو میں کیل کو "پہاڑی بکرا” بھی کہا جاتا یے ۔فارسی میں "بزکوئی” یا بزکوہی کہتے ہیں ۔شینا زبان میں”کیل” اور بلتی زبان میں "سکن” جبکہ کھوار زبان میں "تونیشو” کہاجاتا ہے ۔ مارخور اور کیل کا ایک ہی قبیلہ یے ۔اس قسم سے تعلق رکھنے والے اور بھی جانور دنیا میں پائے جاتے ہیں اور شمالی پاکستان میں کیل کی جو قسم پائی جاتی ہے اسے "ہمالیہ کیل”اور "ہندوکش کیل ” کہا جاتا ہے۔ کیل ساڑھے چار فٹ لمبا اور اونچائی چھتیس انچ ہوتی ہے ۔ اگلی ٹانگیں پچھلی ٹانگوں سے قدرے چھوٹی ہوتی ہیں۔ سینگ لمبے اور خم دار ہوتے ہیں اور سامنے دانہ دار اور اندر سے صاف ہوتے ہیں ۔ کیل کا رنگ، عمر، موسم اور مقام کے ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے ۔ گرمیوں میں خاکستری سیاہی اور سردیوں میں زرد بھورا رنگ ہوجاتا ہے ۔ کیل کا قدرتی مسکن چارہزارپانج سو فٹ کی بلندی سے شروع ہوتا ہے ۔ سردیوں میں شدید برفباری کی وجہ سے نیچے اترتا ہے اور گرمیوں میں بلند و بالا چراہ گاہوں کی طرف مراجعت کرتا ہے ۔ بے رحمانہ شکار کے باوجود یہ جانور شمالی علاقوں میں پایا جاتا ہے ۔اپر چترال میں مستوج سب ڈویژن، موڑکھو اور تورکھو میں بھی پایا جاتا ہے ۔ اپر چترال کے بنسبت لوئر چترال میں اس کی تعداد زیادہ ہے ۔

لوئر چترال میں گولین گول میں خاصی تعداد میں پایا جاتا ہے جہاں سالانہ غیر ملکی شکاری شکار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ لٹکوہ کی وادی میں تھوڑی تعداد موجود ہے۔اس کے شکار سے مقامی آبادی کو ریالٹی ملتی ہے ۔ بدقسمتی سے مختلف وی سی سی ایز کروڑوں روپے کے فنڈ بٹورنے کے باوجود اس کے تحفظ اور بقا میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ۔کیل گلہ کی صورت میں رہتا ہے ۔ عمر رسیدہ جانور عموماّ تنہائی پسند ہوتا ہے ۔ سردیوں کے اوائل میں نر مادے کا ملاپ شروع ہوتا ہے ۔ کھوار زبان میں اسے "امُشت ” کہتے ہیں ۔ حمل کی معیاد پانج ماہ ہوتی ہے اور بچوں کو دودھ پلانے کی معیاد ایک سال ہوتی ہے ۔بعض اوقات زیادہ تعداد ہونے کی وجہ سے کوئی مادہ ملاپ سے رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے اس مادے کا رنگ کالا ہوجاتا ہے اور گلہ میں آسانی سے پہچانی جاتی ہے ۔ ماہرین کہتے ہیں اس رنگت اس لئے کالی ہوتی ہے وہ طاقتور اور توانا رہتا ہے اور اس کے بال نہیں گرتے۔مارخور کی طرح نر کیل بھی پیشاب کے زریعے اپنے حدود کا تعین کرتا ہے ۔نسل کٰشی کے موسم کے اختتام پر نر مادے میں علیحدگی ہوتی ہے ۔نر اونچائی کی طرف مراجعت کرتا ہے اور مادہ بچے دینے تک پائینی جگہوں میں رہتی ہے ۔ اسیری میں بھی بچے دیتی ہے لیکن ان کی بہت کم تعداد زندہ رہتی ہے. مارخور کی طرح کیل بھی عادتاً مقامی ہے لیکن اس کی نقل و حمل کا دائرہ کار کافی وسیع ہے ۔گھاس اور جھاڑیاں اس کی خوراک ہیں ۔سردیوں میں برف کھود کر گھاس پھوس چھلکے اور دیگر اشیاء کھاتا ہے ۔صبح و شام چرتاہے اور دن کو مارخور کی طرح آرام کرتا ہے ۔ نمک کی کمی کو پورا کرنے کے لئے دور دور تک سفر کرتا ہے ۔پانی پر زیادہ دارومدار نہیں کرتا ۔دشمن سے بچنے کے لئے چٹانوں اور غاروں میں رہنے کے لئے ترجیح دیتا ہے ۔ حساس جانور یے، قوت شامہ، سماعت اور بینائی سب تیز ہیں۔ یہ انتہائی پھرتیلا اور چڑھائی چڑھنے والا جانور ہے ،خطرے کی صورت میں بلندی کی طرف بھاگتا ہے جگہ جگہ ٹھہر کر سیٹی بجاتا ہے جس کی وجہ شکاری کے ہتھے چڑھ جاتا ہے اور اس کے برعکس مارخور نشیب کی طرف لپکتا ہے اور شکاری کی نظر سے فوراً غائب ہوجاتا ہے ۔برفانی چیتا اس کا بھی دشمن ہے ساتھ ہی سیاہ گوش اس کے بچوں کو نقصان پہنچاتا ہے ۔گرمی کے شروع ہوتے ہی کیل کے بال گرنے لگتے ہیں اور رفتہ رفتہ بلکل ننگا ہوجاتا ہے. اس وقت مکھیوں، مچھروں سے بچنے کے لئے غاروں اور جھاڑیوں میں پناہ لیتا ہے ۔اس جانور کے گوشت کا زائقہ بیل گوشت سے ملتا جُلتا ہے لیکن اس سے ایک خاص قسم کی بُو آتی ہے ۔اس نایاب جانور کے تحفظ کے لئے محکمہ وائلڈ اسی طرح غفلت برتی رہے تو اس قیمتی جانور کا مٹنا قدرتی امر ہے ۔

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email