خودکشی کا نفسیاتی پہلو

اس مقالے کے اقتباسات ایک اکیڈمک کاؤنسلر کے سمجھ بوجھ پر مبنی ہے، نہ کہ کسی   مینٹل ہلیتھ کاونسلر  کی سوچ کا نتیجہ۔  چونکہ یہ موضوع بہت ہی وسیع ہے لیکن اس کی اہمیت کو مد نظر رکھ کر میں نے اس موضوع کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔

پہلے حصے میں خود کشی کی تعریف اور اس  فیمنانن(Phenomenon)  کا مختصر تاریخی جائز ہ لیا جائے گا ۔

دوسرے حصے میں خودکشی کےموجودہ منظر نامہ کے حوالے سے بات کی جائے گی جس میں چترال کا  بھی ذکر شامل ہوگا ۔

تیسرے حصے میں خودکشی کی نفسیاتی وجوہات پر بحث ہوگی  اور آخری حصے میں وہ تجاویز ہونگے جو میری نظر میں خودکشی کے سدباب کے حوالے سے موثر ثابت ہوسکتے ہیں ۔

نمبر 1: خود کشی کی تعریف اور چند تاریخی     پہلو

اس موضوع پر لکھنے والے   یا گفتگو کرنے والے ماہرین نے    خود کشی کی مختصر تعریف   کرتے ہوئے   یوں کہتے ہیں ۔

” خود کشی ایسی ارادی  یا ارادے کے نتیجے میں رونما ہونے والی موت کو کہتے ہیں جس میں ایک شخص اپنی زندگی کو ختم کرنے کی براہ راست اور شعوری طور پر کوشش کرتا ہے ۔ "

اس شعوری یا آگاہی پر مبنی کوشش  کے نتیجے میں اگر موت واقع ہو جائے تو وہ خوکشی کہلائے گی

اور اگر موت واقع نہ ہو اور کوشش کرنے والا  یا والی بچ جائے تو خود کشی کی کوشش یعنیAttempt to Suicide  کہلائے گی۔ اسی وجہ سے خودکشی کے علاج کو موجودہ انسانی علم دو پہلوؤں میں دیکھتا ہے۔

 پہلا  پہلو خودکشی کی کوشش ہونے کے بعد علاج اور دوسرا پہلو خود کشی کی روک تھام یعنی             suicide prevention ہے۔

 انسانی علم کے دو اہم شاخیں جو خودکشی کی Phenomenonکا مطالعہ کرتے آرہے ہیں وہ سوشیا لوجی اور علم نفسیات ہیں ۔

ان کے علا وہ دوسرے شعبے بھی جزوی طور پر اس کا مطا لعہ کرتے آرہے ہیں ۔گو کہ تا ریخ میں خودکشی کے واقعا ت زما نہ قدیم سے ہوتے آرہے ہیں مگر اس پر سا ئنسی بنیا دوں پرپہلا کا م فرا نسیسی سوشیا لو جسٹ املی ڈر خائیم نے اپنی 1897کی کتاب Sucide A case study کی صورت میں کیا۔اس نے اپنی کتاب میں خودکشی کی چار اقسام بتا نے کے ساتھ ساتھ اس نتیجے پر پہنچا کہ  راسخ العقیدہ اور کٹر Catholicعیسائیوں کی نسبت روشن خیا ل اور ترقی پسند Protestantعیسائیوں کے ہاں خودکشی کا رجحان زیا دہ تھا۔

معاشرتی علوم کے تناظر میں ڈرخایم کی دی ہوئی جانکاری کو گو کہ ان کے بعد آنے والے ماہرین نے کچھ حوالوں سے تنقید کا نشانہ بھی بنا یا ہے۔مزید براں ان کی دی ہوئی جان کاری کو ایک اور حوالے سے بھی محدود سمجھا جا سکتا ہےکیونکہ اس نے اپنے Findingsاس زمانے میں پیش کی تھی جب معاشرے کا Dynamicsآج کے معاشرے سے کئی حوالوں سے مختلف تھا۔ تا ہم اس کے مطالعہ کرنے سے چترال میں پائی جانے والی  خودکشی کے واقعات کی توضیع میں کچھ حد تک مدد ملتی ہے۔

دستیاب حوالہ جات اور تاریخی پس منظر میں خود کشی  کواگر مطالعہ کیا جائے تو یہ امر وا ضح ہو جا تی ہے کہ تمام انسانی تہذیبوں میں چا ہے  چینی ہو یا یونانی ،رومی ہو یا ہندوستان کے ہندہ تہذیب ،تما م میں خودکشی کے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ان واقعات کی وجوہات کی کھوج لگانے کی کوشش کی جائے تو وجہ اتنے ہی زیادہ نظر آتے ہیں جتنا خودکشی کر نے والوں کی تعداد۔

493قبل از مسیح کے عظیم یونانی فلاسفر،سیاستدان اور افلا طون اور ارسطو کے پیش رو اور استادEmpedoclesکی خودکشی کی وجہ کو تاریخ  ان  کی اس بصیر ت سے تعبیر کرتا ہےجسکے مطابق وہ خالق حقیقی سے ملنے کی آرزو کو لے کر سسلی کے آتش فشاں میں کود پڑا تھا۔

711عیسوی میں محمد بن قاسم کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد راجہ داہر کی بیوی ملکہ رانی بائی اپنے تمام  شاہی خاندان کے ساتھ خودکشی اس وجہ سے کی تھی کہ ان کا نظریہ یہ تھا کہ مغلوب ہونے کے بعد فا تحین کے ہاتھوں ان کی عزت محفوظ نہیں رہے گی۔

ہندو معاشرے کے اندر ایک  دلچسپ قسم کی خودکشی کا تصور پایا جاتا ہے جو کہ آج بھی Practiceکیا جا تا ہے جس کو Mahasamadhiکہا جاتا ہےجس میں خودکشی کرنے والا /والی 7,8مہینے پہلے بتاتا/بتاتی ہے کہ فلاں مقررہ وقت میں وہ اپنے جسم کو چھوڑ دے گا یا دے گی اور اس مقررہ وقت میں وہ شعوری طور پر موت کو گلے لگا تا  یا لگاتی ہے۔اس قسم کے Self Inflicted Conscious Deathکی توضیع اور وجہ بتاتے ہوئے بعض لوگ اس کو معیوب بھی نہیں سمجھتے بلکہ ایک مکمل فلسفے کا بیان پیش کرتے ہیں۔تاہم اسلا می نظرئے میں خود کشی کے حوالے سے بڑے وا ضح احکا ما ت ہیں۔

مختصر یہ کہ خود کشی کے پیچھے جو عوامل کا رفرما ہوتے ہیں وہ ہر دوراور معاشرے میں مختلف رہے ہیں اور اس عمل کو کرنے والے کے محرکا ت بھی منفرد ہوتے ہیں ۔

2:   خود کشی کا موجودہ منظر نامہ

آج کے دور میں اگرخودکشی کے رجحانات اور واقعات کو دیکھا جائے تو حالا ت حوصلہ افزا نظر نہیں آتے۔ عالمی ادارہ صحت کے حالیہ رپورٹ کے مطابق سالانہ آٹھ لاکھ لوگ خودکشی کی وجہ سے مر جا تے ہیں۔ اور اس Figureسے زیادہ لوگ خودکشی کی کوشش یعنی Attempt to Suicideکر تے ہیں اور اسی ادارے ہی کے مطابق 15سے29سال کے عمر کے لوگوں میں خودکشی موت کی دوسری بڑی وجہ ہے۔

 اگرہم چترال کے موجودہ صورت حال کا تجزیہ کریں تو درجہ بالا شماریات کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے ۔نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی خودکشی کا رجحان پوری دنیا کے لئے ایک گھمبیر صورت اختیا ر کر چکی ہے اور چترال کا معاشرہ بھی اس سے مبرا نہیں۔

2018 کے رپورٹس کے مطابق ہندوستان کے اندر ہر ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں 25سال سے کم عمر کا ایک نوجوان خودکشی کر لیتا ہے۔سال 2017 میں ہندوستان میں 15 سال سے کم عمر کے 7500 بچوں نے خودکشی کی۔پاکستان کا صورتحال قدرے مختلف ہونے کے سا تھ ساتھ ہندوستان کی صورتحال سے بہتر نظر آتا ہے۔ تاہم درست اور مکمل شماریات کی عدم دستیابی بھی پاکستان کے اندر خودکشی کےرجحان کا مطالعہ کرنے کی راہ میں ایک رکا وٹ نظر آتی ہے۔ جب کہ Research اس امر کو واضح کرتا ہےکہ پاکستان کے اندر زیادہ تر خودکشی کر نےوالے 30 سال سے کم عمر کے لوگ ہیں جب کہ خودکشی کی وجوہات میں بےروزگاری، غریبی، بے گھر ہونا، خاندانی جھگڑے، صحت کے مسائل، معاشرتی دباو،ڈپریشن اور دوسرے نفسیاتی مسائل کو گنا جا تا ہے۔

چترال کے اندر جتنے بھی نوجوانوں کی خودکشی کے واقعات سامنے آئے ہیں ان میں دوسرے عوامل کے علاوہ معاشرتی دباو اور جذ باتی محرکات نما یاں نظر آتے ہیں۔ یقینا نفسیاتی مسائل کا کردار بھی اس ضمن میں توجہ طلب ہے۔

چونکہ مجھے اس مقالے میں خودکشی کی نفسیاتی پہلووں کو Focus کرنے کا کہا گیا ہے۔ لہذا باقی وجوہات سے چشم پوشی کرکے کچھ نفسیاتی عوامل پر روشنی ڈالنا چاہوں گا۔

3:      خودکشی کے نفسیاتی وجوہات

بعض علم نفسیات کے ماہرین کے نزدیک خودکشی حالات و واقعات کی وجہ سے نہیں ہوتی، حالات و واقعات کو Final Trigger  سمجھا جاتا ہےاوریہ سمجھا جاتا ہےکہ خودکشی کے لئے پہلے سے ایک تیاری ذہن میں ہوتی ہےاور وہ تیا ری موڈ کی خرابی یعنی Mode Disorder کی وجہ سے ہوتی ہے۔

انسان کی نفسیاتی پہلو کو زندگی کے دوسرے عوامل سے الگ کر کے دیکھنا ایک جزوی طریقہ کار ہوگا۔ کیونکہ انسان کا نفسیاتی وجود زیادہ تر اس کی معاشرتی تجربات، محسوسات،مسائل اور ترجیحات سے تشکیل پاتی ہے۔اس لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک فرد کی Psychological Makeup ان تما م چیزوں سے بنتی ہے جو کہ وہ معاشرے کا حصہ ہوتے ہوئے تجربہ کرتا ہے۔مثال کے طور پرڈپریشن،موڈکا خراب ہونا اور کئی قسم کے نفسیاتی مسائل جن کا ذکر Diagnostic and Statistical Manual of Disorder اور International Classification of Disorders میں کیا گیا ہے ان میں کا فی مسائل فرد کے معاشرتی میلا نات اور تجربا ت سے وجود میں آتی ہیں۔اس لئے خودکشی ڈپریشن کی وجہ سے ہویا کسی اور  Mental Disorder کی وجہ سے ہو کسی بھی صورت میں نفسیاتی پہلوکو معاشرتی عوامل سے الگ کر کے دیکھنا سطحی ہوگی۔

تاہم نفسیاتی اعتبارسے اگر خودکشی کو دیکھا جائے تو اس کی سب سے بڑی وجہ موڈکی خرابی کو سمجھا جاتا ہے جسے Mode Disorder کہتے ہیں۔یہ اگر مسلسل رہے تو ڈپریشن کی بڑی وجہ ہو سکتی ہےجو کہ خودکشی کرنے کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ ہے۔ مایوسی کی اندرونی کیفیت جو دماغ پر چھا جائے تو ڈپریشن وجود میں آتی ہےاور ڈپریشن بنیا دی Element ہے جس کا نتیجہ خودکشی ہو سکتی ہے۔

ڈپریشن پیداکرنے والے عوامل معاشی بھی ہوسکتی ہیں اور معاشرتی بھی،وہ داخلی بھی ہوسکتی ہیں اور خارجی بھی۔ اندرونی جسمانی کیفیت کی وجہ سے بھی ڈپریشن ہوسکتاہےاور بیرونی وجوہات سے بھی۔ ڈپریشن کی وجہ جو بھی ہو یہ نفسیاتی اعتبا ر سے خودکشی کا بڑا  Contributor ما نا جاتاہے۔ موڈ کو صحیح رکھ کر ڈپریشن کا انسانی وجود میں آنے سے کا فی حد تک روکا جا سکتا ہے۔

موڈ کو صحیح رکھنے کے لئے کچھ چیزیں بہت ضروری ہیں جو کہ نوجوانوں کو بتانا نہایت ہی ضروری ہیں۔

 رات کو وقت پہ سونا اور آٹھ گھنٹے کی نیند پورا کرنا ،   ورزش کرنا ،        متوازن غذاکا ہونا،   معاشرے میں بہتر تعلقات کا ہونا

ان چیزوں پر اگر توجہ دی جائے تو موڈ کی خرابی جو کہ ڈپریشن کو جنم دیتی ہے کو کا فی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

ایک اور پہلو جو نفسیاتی اعتبار سے خودکشی کا رجحان پیدا کرنے میں کردار آدا کر تی ہے وہ سوچنے کا انداز ہے اور دما غ میں منفی سوچ کا پیدا ہونا ہے۔امریکی ماہر نفسیات Aroum Beck سوچ میں منفی زاویوں کا مطالعہ کرکےان کو Cognitive Errors and Depressive Cognitive Triad کا نام دیتا ہےاس کے مطابق سوچ میں منفی رویہ پیدا ہوتا ہےتو ایک شخص تین حوالوں سے منفی سوچنا شروع کرتا ہے۔

نمبر 1:    وہ اپنے بارے میں اپنی ذات کے بارے میں اوراپنی کامیا بی کے بارے میں منفی سوچ پالنا شروع کرتا ہے

نمبر 2:    وہ دنیا کے بارے میں، آس پاس کے لوگوں کے بارے میں اور معاشرے کے بارے میں منفی ہوجاتاہے۔اور

نمبر 3:    وہ مستقبل کے بارے میں منفی سوچنا شروع کرتا ہے۔

یہ تین قسم کے منفی سوچ جن کوCognitive Errors  کہتے ہیں اگر زیادہ عرصے تک کسی فرد میں رہے تو اس سے بھی خودکشی کا رجحان جنم لیتا ہے۔ اب یہ تربیت دینے والی معاشرتی اکائوں کی ذمہ داری ہےکہ نوجوانواں کے اندر مثبت سوچ پیدا کرنے کی کوشش کریں۔اگر مختلف معاشرتی اکائیاں مل  کر کام کریں گے تب ہی نوجوانوں میں خودکشی کی رجحانات کو کا فی حد تک کم کیا جا سکتاہے

4:     خود کشی کی روک تھام کے لیے  کچھ مشورے

خود کشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو مد نظر رکھتے ہوئے ماہرین نے اس کے لیے جو علاج تجویز کی ہیں  وہ دو حصوں میں منقسم ہے ۔

پہلے حصے میں  کسی شخص کی خود کشی کی کوشش کے بعد زندہ رہنے کی صور ت میں  علاج کا مکمل طریقہ  کار

اور دوسرے حصے میں خود کشی کی روک تھام کی  کوشش  ہوتی ہے ۔چترال میں ہمیں دونوں حوالوں سے کام کرنے   کی ضرورت ہے ۔

یہ کام کوئی ایک فرد یا ادارہ تنہا نہیں کرسکتا ۔ اس میں حکومت کی سرپرستی میں معاشرے کی تمام اکائیوں کو مل کر موثر کام کرنا ہوگا  ۔ معاشرتی اکائیاں مثلا گھر ،تعلیمی ادارے اور میڈیا وہ اہم Entitiesہیں ،  جو سرکاری اداروں سے مل کر چترالی معاشرے  میں اس ناپسندیدہ فعل کو نمایاں حد تک گھٹا سکتے ہیں ۔

مشہور امریکن ماہر نفسیات Paul Holinger    نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی خودکشی کے رجحان کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں  کہ جاب مارکیٹ میں جگہ بنانے کی دوڑ ،امتحان میں پوزیشن لینے کی خواہش  ،تعلیمی لحاظ سے اور کھیل کے میدان میں  نام کمانے کی کوشش نوجوانوں میں شدت اختیار کرکے بعض اوقات  ان خوابوں کی تعبیر مدہم نظر آکے  ان کے اندر مایوسی  پیدا کر دیتی ہے ۔نتیجتا ان کے اندر خودکشی کے رجحان کو تقویت دیتے ہیں ۔ اب ان رجحانات کو کم یا زائل   کرنے کی ذمہ داری اجتماعی طور پر معاشرے پرہے۔معاشرے کی تمام اکائیوں کی ذمہ داریوں کا الگ الگ تذکرہ کرنا اس مقالے کے اسکوب سے باہرہے۔  اس لیے ذیل میں ایک ایسی معاشرتی اکائی کے حوالے سے ذکر کرونگا ۔جو کہ ہمارے معاشرے کے نوجوانوں میں خود کشی کے رجحانات کو کم کرنے میں بنیادی   کردار ادا کرسکتا ہے ۔

 اس اکائی کو ہم درسگاہ یا تعلیمی ادارہ کہہ سکتے ہیں ۔خوش قسمتی سے آج چترال کے اندر پرائمر ی سے لے کر یونیورسٹی لیول  تک کے درسگاہ موجود ہیں ۔یہ ادارے مربوط طریقے سے معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی لاسکتے  ہیں ۔   سوچ کی تبدیلی ،دنیا کو دیکھنے کے زاویے میں تبدیلی   ہی نوجوانوں  کے اندر مایوسی کو ختم کرنے  میں کردار ادا کرسکتا ہے ۔ جو کہ خود کشی کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔

اس تناظر میں درج ذیل نکات قابل غور ہیں ،

نمبر 1:              ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے  کہ معاشرے میں موجود شعبوں میں        سے چند کوہی قابل عزت سمجھ    کر طلبہ  کو ان ہی شعبوں میں نام کمانے کا درس دیا جاتا  ہے۔نتیجتا ان چند شعبوں میں جگہ بنانے کی راہ مشکل لگنے لگتی ہے۔  تو نوجوان طالب علموں میں مایوسی کا رجحان پیدا ہوجاتا ہے ۔موڈ خراب ہونے لگتا ہے اور یہ موڈ کی خرابی کچھ عرصہ  بعد ڈپریشن کی صورت اختیار کرتا ہے  جس کو  ماہرین  خودکشی کا  سب سے بڑا سبب مانتے ہیں ۔ تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ طالب علموں  کے لیے موجود تمام شعبوں کے   حوالے سے آگاہی  اور ان تمام شعبوں کا قابل عزت ہونے کا درس دے۔  طالب علموں کی اگر پراپر کرئیر کاؤنسلنگ  کیا جائے تو کافی حد   تک مایوسی اور فرسٹریشن  کو کم کیا جاسکتا ہے۔

نمبر 2:             نوجوانوں کے اندر مایوسی  پیدا کرنے میں کچھ حصہ والدین کے ان  بے جا توقعات بھی ہیں جو وہ اپنے بچوں سے رکھتے ہیں ۔۔ ریسرچ یہ بتاتی ہیں  کہ ہمارے  معاشرے  کے اکثر والدین بچوں سے ان شعبوں میں جانے کی توقع رکھتے ہیں جو کہ اس بچے کی ذہانت و قابلیت ،مہارت اور ذہنی جھکا ؤ سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ لہذا اس  حوالے سے  والدین کو آگاہی  دینا  دوسرے معاشرتی اکائیوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کا بھی ایک اہم  پہلو ہونا چاہیئے ۔

نمبر 3:   تعلیمی اداروں کا اندورنی ماحول ، اساتذہ کے رویے  اگر روایتی انداز سے نکل کر زیادہ دوستانہ اورCaring ہو  تو طالب علموں کا سکول اور سبق کے ساتھ تعلق خوشگوار بن جائے گا ۔ نتیجتا اسکول کا ماحول طالب علم کو وہ جگہ مہیا کرے گا جہاں رہ کر وہ اپنے اندر مایوسی کو کم کرسکے گا ۔

نمبر 4:             معاشرے میں  نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے مختلف طریقہ  کار  ہوتے آئے ہیں ۔ سزا دینا کسی زمانے میں شائد نظم و ضبط برقرار رکھنے کا موثر  طریقہ سمجھا جاتا تھا ۔ اب نظم و ضبط برقرار رکھنے ک طریقے  بدل چکے ہیں ۔ درس گاہوں کے اندر طالب علموں کو مختلف ذمہ داریاں دینا ، کلب اور سوسائٹیز کا ممبر بنا کے ذمہ داریاں تفویض کرنا  نہ صرف نظم و ضبط کو برقرار رکھے گا، بلکہ ایک طالب علم کے  رجحان کو مثبت ڈائریکشن دے سکتا ہے ۔گھروں میں بھی اگر والدین دوستانہ ماحول پیدا کرکے اپنے بچوں کو مختلف ذمہ داریاں دے کر  ان پر اعتماد کا اظہار  کریں تو بچے منفی رجحانا ت کی طرف نہیں جائیں گے ۔

نمبر 5: ٍ  اسلامی اقدار کے حوالے سے  درس دینا  درسگاہوں کا نمایان پہلو رہا ہے ۔ لیکن ایک اہم اسلامی قدر   یعنی ” روحانی روشنی ”  کی تلاش    کو بہت کم فوکس کیا جاتا ہے ۔  مذہبی اسکالرز کو بلا کر نہ صرف خودکشی کی مذہبی ممانعت کو اجاگر کرنا ضروری ہے ۔بلکہ اسلامی    تصوف کے ان پہلوؤں سے بھی طالب علموں کو آگاہ کرنا  کارآمد ثابت ہوگا ۔ جوکہ روحانی روشنی کی تلاش کے نام سے اسلامی روایات میں صدیوں سے چلی آرہی ہے۔

نمبر 6:             سکول میں  ٹائم منیجمنٹ کے  حوالے سے سیشنز ہوتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ  Emotions  Management  اور Behavior Management  کے سیشنز کا انعقاد بہت ضروری ہیں ۔

آخر میں یہاں پر موجود تمام حاضرین کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ پی ڈی چترال یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر بخاری صاحب  سے گزارش کرونگا ۔ کہ آپ کچھ عرصہ پہلے ایک نشست میں یونیورسٹی کی طرف سے خودکشی کے رجحان میں اضافے کےحوالے سے  ایک سروے کا ذکر کیا تھا ، اس حوالے سے اگر عملی قدم اٹھائے جائیں تاکہ ان رجحانات کو جاننے اور زائل کرنے میں مدد مل سکے ۔

نوٹ:    یہ مقالہ چترال پریس کلب کے پروگرام مہراکہ میں پڑھ کے سنایا گیا تھا  

Print Friendly, PDF & Email