جب زندہ انسان چترال کے راستے اسمگل ہوا کرتے تھے

طیارہ بلندو بالا پہاڑوں اور وادیوں کے اوپر سے شمال کی جانب محو پرواز تھا۔ جب بادل چھٹے تو ہم چترال کے سنگل لینڈنگ اسٹریپ والے ائیر پورٹ میں اترنے والے تھے۔ ائیرپورٹ کی عمارت سنگترے کے درختوں سے گھری ہوئی تھی اور آس پاس کے ماحول سے وہ علاقہ پچاس کی دہائی میں انگلینڈ کے ڈیوؤں کاؤنٹی جیسا لگ رہا تھا۔ اگر افغانستان کے خلاف کوئی عسکری کارروائی کی گئی تو یہ علاقہ ایک عسکری حب بن سکتا ہے۔ جب سے افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جنگ شروع ہوئی ہے، سرد اور خشک پہاڑوں سے گھرا یہ علاقہ سمگلروں اور ہتھیاروں کا مرکز بنا ہوا ہے۔

ہم افغانستان کے اس علاقے میں جانا چاہتے تھے جو طالبان کے خلاف مذاحمت کا مرکز ہے اور وہاں تک پہنچنے کے لیے چترال کے پہاڑوں سے پیدل چل کر جانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں، لیکن پولیس اور فوج نے جگہ جگہ چیک پوائنٹس بنا کر اُدھر پہنچنے کے تمام راستے بند کردیے ہیں۔ ہمیں اس قدیم راستے سے افغانستان جانا ہوگا جو امریکا اور پاکستان کی خفیہ ایجنسوں کی جانب سے سویت یونین کے خلاف لڑنے والے مجاہدین اور اسامہ بن لادن کو ہتھیار سپلائی کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ چترال میں ہمیں یہ بتایا گیا کہ ایک شخص ہے جو ہمیں پہاڑوں کے اوپر سے افغانستان پہنچا سکتا ہے۔ لوگ اسے شہزادہ کہتے تھے۔ ہم چترال سے تھوڑے فاصلے پر ان سے ملنے کے لیے گئے اور دریا کے کنارے کئی گھنٹے چھپ کر ان کا انتظار کرنے لگے۔ پھر شہزادہ آیا اور ہمیں اپنے ساتھ ہتھیاروں کے گودام میں لے کر گئے۔ اس کا اصل نام شہرادہ رحمان  تھا۔ وہ ایک مشکوک شخص لگتا تھا، ان کے خاندان کے سیاسی تعلقات تھے اور وہ ہر بات پر ہنسنے کا عادی تھا۔ ہم نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے چھلانگ لگانے والے لوگوں کی تصویریں انہیں دکھائی تو وہ کھلکھلا کر ہنس دیا۔ وہ سرکاری ملازمین کی کرپشن کا ذکر کرتے ہوئے بھی مسلسل ہنس رہا تھا۔ وہ ہمیں بتانے لگا کہ "یہاں کوئی حکومت نہیں ہے، ہم ہی حکومت ہیں، یہاں پیسہ ہی سب کچھ ہے”۔ مقامی لوگوں نے ہمیں بتایا کہ چند ہفتے پہلے اس نے زمین کے تنازعے پر تین لوگوں کو قتل کیا تھا۔ شہزادہ نے تین لوگوں کو تیار کیا جو ہمیں لے کرکم از کم چار دن کا سفر کرکے افغانستان لے کر جانے والے تھے۔ چالیس سے پچاس کلو وزن کے ساتھ یہ سمگلر ایک دن میں اتنا فاصلہ طے کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے جو ہم مغربی شاید تین دن میں بھی طے نہ کر سکیں۔ اس ساری مشقت کے لیے ان کو روزانہ پانچ ڈالر سے بھی کم ادائیگی کی جاتی تھی۔ جبکہ شہزادہ ہم سے ہنسی مذاق میں ہی فی بندہ 400 ڈالر لینے کی ڈیل پکی کر لی تھی اور دلیل یہ دے رہے تھے کہ ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ جب ہم جانے لگے تو شہزادہ ایک بچھڑےکو ذبح کرکے اس کی کھال اتار رہے تھے ۔ ہماری رہنمائی کے لیے جو سمگلر ہمارے ساتھ تھے ان میں سے ایک کا نام مبارک خان تھا۔ وہ بھیڑ بکریوں کو رکھنے کے لیے بنائی گئی جگہ سے اپنا کمبل جھاڑتے ہوئے نمودار ہوئے اور ہمیں بتانے لگے یہ برف نہیں ہے ، ان کا اشارہ پہاڑوں کی جانب تھا جہاں رات کے وقت برف کی ایک انچ موٹی تہہ جم گئی تھی۔ مبارک خان نے بتایا کہ بیس دن بعد پہاڑوں کو عبور کرنا ناممکن ہوجائے گا کیونکہ یہ سارے پہاڑ برف سے ڈھک جائیں گے۔

دور بادلوں سے پرے ایک برف پوش چوٹی نظر آرہی تھی جو افغانستان میں واقع تھی اور صبح کی روشنی سے چمک رہی تھی۔ تیس برس کی عمر میں مبارک خان ، پاکستان اور افغانستان کے درمیان واقع پانچ ہزار میٹر سے زائد بلند ان پہاڑوں کو گولہ بارود اور ہتھیاروں سمیت پچاس بار سے زیادہ کراس کر چکا تھا۔ اس نے ایک پندرہ سولہ سال کی عمر کے لڑکے کی جانب اشارہ کرکے ہمیں بتایا کہ وہ یہ سب تب سے کر رہے ہیں جب وہ اس لڑکے کی عمر کا تھا۔ ” ایک بندہ ایک وقت میں چار کلاشنکوف لے کر جا سکتا ہے، چھ کا وزن زیادہ ہوگا” مبارک خان اپنا تجربہ بتا رہے تھے۔

ہمارے رہبر اسامہ بن لادن سے کچھ زیادہ واقف نہیں تھے۔ یہ چترال کے کونے میں واقع اس علاقے کے باسی تھے جہاں ابھی دو سال پہلے بجلی آئی تھی۔ نیوز ویک میگزین کے سرورق پر ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے گرنے کی تصاویر ان کو دکھائی تو ان سمگلرز کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ مبارک خان نے کہا”یہ سب تو لندن اور جرمنی کے ہاتھ میں ہے، ہم یہاں پہاروں کے درمیان رہ کر اس بارے میں کیا سمجھ سکتے ہیں”۔ ادھا پہاڑ سر کیا تو نباتات اور پرندے غائب ہوتے گئے، صرف ہوا چلنے اور پتھروں کے سرکنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ پانچ بجے کے قریب جب سورج پہاڑوں کے پیچھے چھپ رہا تھا،

اچانک درجہ حرارت گرنا شروع ہوا، ہلکی پھلکی بارش برفباری میں تبدیل ہوگئی اور درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے چلا گیا۔ رات ہم ایک باسی روٹی کے ساتھ ابلے ہوئے چاؤل کھا کر سو گئے۔ وہ لوگ ایک کمبل کے ساتھ پتھروں کے اوپر خود کو گرم رکھنے کی کوششوں میں مصروف تھے، جبکہ باہر بھیڑیوں کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔ ہم چھ دن چلتے رہے، اور آخری دن تو مسلسل 29 گھنٹے چلتے رہے۔ ہوا میں آکسیجن کی مقدار نہ ہونے کے برابر تھی، افغانستان کی سرحد تک پہنچنے سے پہلے ہم نے دو پاکستانی بارڈر پولیس کے اہلکاروں کو دیکھا جو گھوڑے پر سوار ہمارے قریب آرہے تھے۔ ہم نے جلدی سے افغان بارڈر کراس کیا اور دوسری جانب پہنچتے ہی زمین پر ڈھیر ہوگئے۔ اُ دھر ایک شخص تھا جو گھوڑے کرائے پر دیتا تھا اور کسی گاہگ کے انتظار میں تھا۔ اس شخص نے ہمارے رہبروں سے پوچھا کہ یہ وہ غیر ملکی صحافی تو نہیں جس کی پولیس کو تلاش ہے؟ ہم نے یہ سنا تو اس خوف سے کہ کہیں وہ پولیس والے دوبارہ واپس نہ آئیں، جلدی جلدی وہاں سے جانے کی تیاری شروع کر دی۔

The Guardian

Print Friendly, PDF & Email