اے نوجوان تُو۔۔۔

کہتے ہیں کہ نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ ایک ترقی یافتہ قوم کے پیچھے ہمیشہ نوجوانوں کا ہاتھ ہوتاہے ۔ جس قوم کو باکردار اور با صلاحیت نوجوانوں کی سرپرستی حاصل ہو ۔وہ قوم بام  ثریا پر دستک دینے میں ذرا سی وقت محسوس نہیں کریگی۔ اس کے برعکس اگر قوم کے نوجوان خوبیداہ نظر آئیں، جن کی ہمتوں کی ٹانگیں ہمیشہ لرزتی رہیں ۔ جرات کے پاؤں ڈگمگا جائیں اور جوبے کار صلاحیتوں کے مالک ہوں۔تاریخ  شاہد ہے کہ وہ قوم پستی کی گہرائیوں میں دفن ہوگئیں  ۔اور تاریخ کے اوراق میں ایسی قوموں کا سراغ تک نہیں  مل سکا۔

انسان پچیس سال کی عمر میں نوجوانی کے احاطے میں داخل ہوتاہے۔ اور تقریبا پنتیس سال تک اس احاطے میں اپنی زندگی کے ایام گزارتا ہے ۔ اس دوران وہ جسمانی ،جذباتی اور ذہنی ہر لحاظ سے بلندی کی چوٹیوں کو چُھو چکا ہوتا ہے۔ جہاں اس کے عقل وشعور میں زبردست استدلال پایا جاتا ہے۔ وہاں ا س کے جذبات کی دنیا میں بھی بھونچال نظر آتا ہے۔عقل ودل میں زبردست متصادم کا رجحان پیدا ہوتا ہے ۔ اس عرصے میں اس کے مثبت اور منفی احساسات جاگ چکے  ہوتے ہوتے ہیں۔اور آنے والا  ہر لمحہ اس کے احساسات و جذبات کو چھیٹر ے بغیر نہیں گزرتا اس عرصے میں انسان جہاں مضبوط جسامت اور اوعصاب کا مالک ہوتاہے ۔ وہاں اس کی قوت استدلال بھی عروج پر ہوتی ہے۔ کیونکہ معصوم افراد کی سوچیں بھی معصوم اور فیصلے بھی معصوم ہوتے ہیں۔ان کے ارادے اور صلاحیتں ان کے نرم ونازک جسم کی طرح کمزور ہوتے ہیں۔نوجوانوں کی سوچیں جو ان ،ارادے  مصمم اور صلاحیتیں پختہ ہوتی ہیں۔اس لئے صحت مند دماغ صحت مند جسم ہی میں ہوتا ہے۔اور نوجوان دماغ نوجوان جسم میں ہی ہوسکتا ہے۔

انسان جب پیری میں داخل ہوتا ہے تو اس کا دل و دماغ بھی کمزور شروع کرتاہے۔اس وجہ سے کوئی بھی قوم اپنے معصوموں اور ضعیفوں کا سہارا لے کر عروج کی راہوں میں گامزن نہیں  ہوسکتی۔ ترقی کی منازل طے کرنے کے لئے ہمیشہ نوجوانوں  کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس لئے نوجوانوں کا باصلاحیت اور پُر عزم  ہونا ضروری ہے۔ کہتے ہیں کہ جو موجودہ وقت کی قدر نہیں کرے گا۔ آنے والا وقت اس کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھۓ گا ۔  جو وقت کی دھجیاں اُ ڑادے گا ۔ آنے والا وقت اس کے پرخچے اُڑا دے گا۔اور یوں جو وقت کو برباد کریں گے ۔ وقت انھیں برباد کرتا  رہے گا ۔ اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔اور قیامت تک جاری رہے گا ۔

ہر انسان کی خوا ہش ہوتی ہے  کہ آنے والا وقت اس کو پھولوں کا ہار پیش کرے گا۔ اس کیلے سکون اور خو شیاں لیکر آئے مگر یہ تب ممکن ہوگا کہ تم جانے والے وقت کو راضی کرکے رخصت کریں۔نوجوان اگر وقت کی  قدر کرے گا اور اس کے منٹوں اور گھنٹوں سے فائدہ اُٹھایئگا ۔ تو اس کی محنت سے فضا معطر ہو سکتی ہے ۔دنیا جنت بن سکتی ہے ۔قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔اس لئے کہ اقوام کی تقدیر افراد کے ہاتھوں میں ہے ۔اگر افراد تعلیم یافتہ، محنتی اور مہذب ہیں تو قوم ترقی یافتہ ہے ۔ مہذب ہے اور تعلیم یافتہ ہے ۔اس مضمون کی وساطت سے قوم کے جوانوں سے یہی درخواست  ممکن ہے ۔ کہ قوم کے اوپر بوجھ بننے کے بجائے قوم کی کشتی کو پار  لگانے کی  کوشش کریں ۔ قوم کے عمر رسیدہ افراد، معصوموں اور بے سہاروں کا آسرا بننے کی کوشش کریں ۔ اگر نوجوان کو قوم کےغم و خوشی کا احساس ہے تو وہ نا خدا بن سکتا ہے ۔ احساس سے عاری قوم کا سفینہ ڈوبتے ڈوبتے کچھ زیادہ دیر نہیں لگے گا ۔ آج کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کا دور ہے ۔ آج کی زندگی عجیب کشمکشوں سے دو چار ہے ۔ ایک طرف تو انسانی ز ندگی آسان سے آسان تر کی طرف جارہی ہے ۔ تو دوسری طرف پیچیدہ سے پیچیدہ تر کی طرف رواں دواں ۔ آج کل سے بہت مختلف ہے ۔ اور آنے والا کل تو بالکل ہی اجنبی اور انجاں بن کر آنے والا ہے ۔ اگر وقت کی ضرورتوں کو سمجھا جائے اور اپنے آپ کو اس کے مطابق دُھالا جائے تو زندگی آسان گزرے گی۔ اگر وقت کے تقاضوں کا احساس نہ ہو ۔ وقت آگے چلا جائے  اور ہم پیچھے جانا شروع کردیں تو زمانہ ہمارے اوپر ہنسے گا ۔ آنے ولاوقت بھی روئے گا ۔ ہم بھی روئیں گے۔مگر رونے کا فائدہ ہی کیا؟

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email