جدائی، محبت اور تنہا

 

محبتوں کے بچھڑنے کا زخم شاید ہی مجھ سے زیادہ کوئی سہہ چکا ہو۔ بحیثیت شاعر میری زندگی ہی محبت،محبوب کا بچھڑنا اور تنہائ سے عبارت ہے۔ میرا تخلص یعنی "تنہا” جدائ کے اس تجربے کی وضاحت ہے جو شاید ہر ذی روح کی تقدیر ہے۔ لیکن بہت کچھ پانے والوں کے ساتھ بھی بالاخر ایک جیسی کہانی ہونی ہے۔ اور نہیں تو ادمی کے وجود کا ایک ایک اینٹ گردش دوران گراگرا کے زمیں بوس کرتا ہے۔

بچپن کی بے فکری سے آتش جوانی پھر اس سے عمر جب ڈھلان کی طرف پھسلنا شروع ہوتا ہے تو شروع میں ایک بال کا سفید ہونا بھی تکلیف دہ ہوتا ہے اہستہ اہستہ وہ بھی قابل برداشت ہوتا ہے تو دانت گرنے لگتے ہیں دو تین دفعہ علاج سے تھک کر نرم کھانے اور صرف مسکرانے پر اکتفا کی طفل تسلی سے ادمی اس پر بھی سمجھوتہ کر بیٹھتا ہے ۔تو چہرے کی جھریوں کی فکر شروع.  پھرآدمی کو طرح طرح کی بیماریان بھتلادیتی ہیں کہ آخر میں انسان ہرچیزسے بے نیاز ہوکر صحت کی دعائیں کرنے لگتا ہے ۔ دعاوں اور دواؤں کے باوجود کوئی دن خبر بن جاتا ہے۔ انالللہ وانا الیہ راجعوں

ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ٹیلی نار پاکستان میں سروس دینا شروع کیا تھا اور ٹاک شاک لاونچ کرتے ہی میں نے سم لیا اور تب سے یہی نیٹورک میرے ہر دکھ سکھ کا ساتھی ہے زندگی کے خوبصورت لمحوں اور دلنشین و دلربا لوگوں سے گفتگو کا ذریعہ  اور ان سے محبت سمیٹنے کا موجب بنا ہوا ہے۔ اب جب یہ خبر پڑھی کہ ٹیلی نار پاکستان میں سروس بندکرنے جارہا ہے تو دل کے کرچی ہونے جیسی کیفیت ہوئی،جیسے کوئی دکھ درد کا ساتھی بچھڑ رہا ہو ہمیشہ کیلئیے . اسی طرح کواپیریٹیو مارکیٹ صدر سے عرصے سے کپڑے وفادار محبوب کی طرح ایک ہی دکان سے کل تک خریدتا رہاہوں،پتہ چلا کہ کسی نے آگ لگوا کے پوری مارکیٹ خاکستر کردی۔ پھر وہی کیفیت کہ جیسے کسی نے اعتماد والا ساتھی کا خون کیا ہو۔

گاوں کے چند ایک گھر تھے جہان بچپن کے دنوں کی یادیں بکھرے تھے کچھ معصوم چہرے تھے ان سے معصومانہ حرکات تھےاب یاوہ گھر نہیں یاان کے مکین وہ نہیں رہے اگر درودیوار باقی ہیں تو مکین اجنبی وہ گھر اور آنگن جہاں ہم میلے لباس اور پھٹےجوتوں سمت پامال کرتے تھے ان کے کالے چھت اور دیواروں سے محبت ٹپکتی تھی اب نئے اور شاندار بنائے گئے ہیں لیکن پیار کی جگہ رکھ رکھاو جھلکتی ہے۔ مجھے اب سمجھ ایا کہ مہذب دنیا کیونکر پرانے اور تاریخی عمارات اور جگہوں کو ورثہ قرار دے کر ان کو محفوظ بناتی ہے۔ اسی طرح کی ایک اوربری خبر اپنے رشتے کے بیٹے کلاس فیلو ساتھی شیرعزیز کی بیماری کا ہے، ابھی تو کل کی بات تھی ہر خوبصورت شرارت میں شامل ہمارے گروپ کا سب سے شریر اور چاق وچوبند لڑکا ہواکرتا تھا،سارا دن بھاگتے بھی نہیں تھکتے تھے۔اب دواوں اور سہاروں کے بنا نہیں چل سکتا۔

حقیقت یہ کہ عمر کے نصف النہار کے بعد ایک کے بعد ایک چیز آپ کے ہاتھ سے سرکایا جا تا ہے اور پھر خوابوں اور خواہشات کے پلندے کے ساتھ ایک دن خود ہی کو خبر بنایا جاتا ہے
واہ گردش زمانہ۔ اے گردش آیام ۔۔۔۔۔ ہمیں رنج بہت ہے،کچھ خواب تھے ایسے جوبکھرنے کے نہیں تھے۔ شاید میری زندگی ہی ان تین لفظوں کا نچوڑ ہے۔ محبت، جدائ اور تنہا۔

Print Friendly, PDF & Email