شہرخیال میں خزان

یہ 3 نومبر 2021 کی بات ہے رات گئے چترال سے پشاور پہنچا اور ایک ہوٹل میں کمرہ لیا۔ ویسےسفر ارام دہ بھی ہو تھکن لازم ہے، کھانا دیر سے کھایا تھا بھوک نہیں تھی۔ یوں رات کا کھانا کھائے بغیر سونے کی کوشش کی۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ سوچا باہر نکل کے کچھ دیر چہل قدمی کروں گا لیکن ہمت کہاں سے آئے میں تھکن کے باوجود بھی گھوم پھرنے کو ترجیح دیتاہوں۔ یہان معاملہ الگ تھا قدم اٹھ ہی نہیں رہے تھےمیں ایک آنجانے احساس ندامت اور وہم میں مبتلا تھا کہ جیسےمجھے دیکھ کر یہاں کےدرو دیوار  راستےگلیاں اور کئ آئینوں سے مزین  دروازوں والے رکشے  مجھ سے سوال کریں گے کہ اکیلے کیوں ہو؟کہاں ہیں وہ جو۔۔۔۔۔ کچھ مانوس جگہوں کے احساس اور اس سے جڑے کسک سے گریزان تھا۔

پشاور شہرکے وسیع حصے اور حدود اربعہ سےمیں اب بھی نابلد ہوں البتہ قصہ خوانی بازار چوک یادگار چوک ناصرخان  قلعہ بالاحصار اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال سے پچھلے جنم سے واقف ہوں ۔میری روح مجھے کہتا ہے کہ قصہ خوانی میں کہانیاں سنی ہے چوک یادگار سے داستان گوئی اور پشتوٹپے سیکھا ہے قلعہ بالاحصار میں زخم کھایا ہے اور لیڈی ریڈگ میں مرہم پٹی۔ رحمان بابا سےعقیدت رکھا اور خوشحال خان خٹک سے یاری ، جبکہ اس جنم میں نمک منڈی کی صبح کا ناشتہ قصہ خوانی کی کھیر اور کتابیں کابلی تھانے کی سالم مرغ کباب خیبر بازار کی لسی اور مکی کی روٹی ناصرخان کے رونق میں شاپنگ باغ ناران کی نازان بھری پرکیف ماحول اور پھولوں کے گھچوں کی مہک ہرلذت وعشرت پر حاوی لگتے تھے۔ جس طرح دیوبندی کو مکہ بریلوی کو مدینہ اور شیعہ کو کربلا میں روحانی کیفیت طاری ہوتا ہے مجھے اس شہر میں بھی وہی کیفیت محسوس ہوتا تھا جس کو ممکنہ طور عشقانی کیفیت کہناچاہیئے۔ لیکن اب کی بار منتشر ذہن کے ساتھ ہوٹل کی بالکونی میں جابیٹھا اور کچھ یادیں مجتمع کرنے اور خود پرمذکورہ کیفیت طاری کرنے کی ناکام کوشش کی تاکہ اس بے بسی اور وحشت کو بیان کر سکوں مگرذہن  باہر نظر آنے والی بی آرٹی اسٹیشن کی طرح خالی اور سنسان تھا۔ (رات گئے بسین چلنا بند ہوجاتے ہیں.)

جون ایلیا صاحب کے بقول خوابوں کا روٹھ جانا بھی سب سے بڑی اذیت ہے ۔ اور اس کوفت میں ہوں پھولوں کایہ شہر کانٹوں کا سیج لگنا اورالفاظ کی قحط الرجالی بھی اسی سبب تھا۔

گاوں میں کچھ جگے اپنے پینٹنگ اور لکڑی سے کیلی گرافی والی کام دیکھ کرپہلے سے پچھتاوا تھا کہ اپنے بے اثر شاعری سے وہ ہنر کتنا اچھا تھااب جبکہ یہ ہنر بھی  ماند پڑنے لگا ہےتو پچھتائے کیا ہوت۔۔۔

میرے ایک غزل کے دو اشعار یاد آرہے ہیں۔ جو آج کے دن اور اسی حالت پر صادق اتاہے کہ

شکوہ شکایت کرنا کیاکسی سے
جب برباد ہوگیا اپنی خوشی سے
میرے اندر کا شاعر اب مرچکا ہے
اچھا ہے ،جان چھوٹی شاعری سے

Print Friendly, PDF & Email