صالح ولی آزاد

غزل

موقوف ایک در پہ نہیں بے کلی کی شام
ہر درد کو کھٹکھٹائے گی یہ زندگی کی شام

دو دن کی مستعار گھڑی یوں بسر ہوئی
اک بے کلی کی صبح تھی اک بے بسی کی شام

ہو تیرا گزر جس گلی  سے دفعتاً کبھی
مثلِ سحر ہے مرے لیے اُس گلی کی شام

مے خانہ و زندان  و شب  وصل ، شب تار
ہر رنگ میں ڈھلتی  رہے گی ہر کسی کی شام

ساغر کی چھنک ،دردِ جگر ،مفلسی کی آہ
کتنی عجیب لگ رہی ہے آدمی کی شام

توقیر تری بزم میں یوں ہوگئی مری
جیسے دیار غیر میں ہو اجنبی کی شام

آزادؔ  اُسی شام پہ صد شام ہو فدا
قسمت سے میسر ہو اگر دل لگی کی شام

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے