یہ آغوشِ محبت ہے

سلمان نادر

یہ آغوشِ محبت ہے
یہاں دل چاک اُمیدوں کا اک ہنگام
رہتا ہے
رداۓ درد کو تلخی
زبانِ عام کرتی ہے
یہاں منزل نہیں ملتی
فقط رستے نکلتے ہیں
یہاں راتوں کی قسمت کو
سحر کی جلوہ انگیزی
گوارا ہو نہیں سکتی
یہاں دل کے سبھی کونوں میں
آرمانوں کا اک یلغار رہتا ہے
کبھی آنکھوں سے دریائیں
اُمڈتی ہیں
بھرے دامن کو تنکے کی طرح دو چار
لمحوں میں بہاتے ہیں
کبھی خون جگر تک بھی
بہانے کو روا رکھنا ہی پڑتا ہے
یہ آغوشِ محبت ہے
یہاں پر عقل کی دل پر
حکمرانی نہیں چلتی
جنوں ہر پل خرد سے
برسرٍپیکار رہتا ہے
یہاں بے نور آنکھیں
روشنی کا درس دیتی ہیں
کبھی واعظ کبھی ناصح
کے ہاتھوں بر سرٍمنبر
سرٍکوچہ
قبا نیلام ہوتی ہے
یہاں تحریرِضبط غم
فقط خون دل رنجور سے
تکمیل پاتی ہے
یہ آغوشِ محبت ہے
جب اس کے آتشیں شعلے
بدن میں رقص کر تے ہیں
تو اس تابانئ غم سے
چراغوں کو ضیاء ملتی ہے
اور پھر زندگی میں
رنگ گٌھلتے ہیں
بہاروں کو نشاں ملتا ہے
اور پھر آگہی کے پھول کھلتے ہیں
تو تب جاکر کہیں نور جہاں ترتیب
پاتا ہے
یہ آغوشِ محبت ہے۔۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے