موسم گرما، مقابلہ مضمون نگاری اور ہماری داستان غم!! دوسری اورآخری قسط

بولے،’’ لکھ رہے ہو؟ اس گرمی میں ؟ باولے ہو گئے ہو کیا؟‘‘

ہم نے کہا  ،’’اجی حضرت کمال کرتے ہیں، لکھنے کا موسم سے کیا لینا دینا ‘‘۔

اگر چہ پسینے میں ترانگلیوں  سے بار بار پھسلتا ہوا قلم خود گواہی دے رہا تھا کہ ہم جو کہہ رہے ہیں وہ کچھ زیادہ صیح نہیں ہے، مگر  اب پھنس چکے تھے ۔ کیونکہ دمدار صاحب سے بحث کرتے ہوئے  پیچھے ہٹنا ایسے ہی تھا جیسے پورے ہاسٹل میں اپنی کج فہمی اور کم عقلی کا ڈھنڈورا پیٹنا۔ اور یہ ہمیں کسی صورت منظور نہ تھا۔

جوابا  دمدار صاحب نے حسب معمول اپنے جلالی انداز میں لیکچر دینا شروع کر دیا کہ ،

’’میاں، کیوں مخول کرتے ہو؟ گرمی کے موسم میں آج تک کوئی لکھ پایا ہے جو تم لکھ پاو گے؟

تصور میں بھی رخ یار پر مکھیاں بھنبھنانے لگتی ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ گالوں پر غازے کی بہار ہے یا مچھروں کے کاٹنے کے نشان؟

فراق کی راتیں کاٹنے کے لئے چھت پر جاو تو  محبت کی بیماری کے ساتھ ملیریا کے موذی مرض میں مبتلا ہونے کے بھی قوی امکانات۔

چہرے پر پھسلنے والے پانی کے قطروں کے بارے میں فیصلہ صادر کرنا مشکل ہے کہ یہ پسینہ ہے یا دل ٹوٹنے پر آنکھوں میں در آنے والے موتی؟

ایسےمیں غزل ، غزل سے زیادہ مچھر مار دوائی کا اشتہار بن جاتا ہے اور نثر، نثر کے بجائے موذی امراض سے بچنے کے لئے لکھی جانے والی ہدایات پر مشتمل تحریر بن جاتی ہے۔‘‘

اتنا کہہ کر دمدار صاحب فاتحانہ نظروں سے ہماری طرف دیکھنے لگے ، کہ اب بولو اور ہم جو ان کے دلائل کی عجیب و غریب نوعیت پر حیران ہو کر ہونقوں کی طرح منہ کھولے انہیں دیکھ رہے تھے بوکھلا کر بولے کہ، ’’بھئی ضروری ہے کہ موضوع تحریر عشق و محبت ہی ہو؟ ۔ سنجیدہ موضوعات پر بھی تو لکھ  سکتا ہے  بندہ ۔‘‘

خود ، ہمیں  ، یعنی کہ بولنے والے کو اپنی آواز کہیں اور سے آتے ہوئی محسوس ہو رہی تھی تو احقر صاحب  کو بھلا   ہماری  بات میں کیا وزن محسوس ہونا تھا؟ ایک طنزیہ اور اچٹتی ہوئی نظر ہم پر ڈالتے ہوئے کچھ یوں باہر کو چل دئے گویا مجھ جیسے قابل رحم فرد کیساتھ بحث کرنا ان کے شایان شان نہ ہو۔ اور جاتے جاتے فقرہ بھی چست کر گئے کہ بھئی بندے تو بہت کچھ لکھ سکتے ہیں، آپ اپنی بات کرو۔

چونکہ یہ فقرہ مکمل کرنے سے پہلے ہی احقر صاحب دروازہ اس سے بھی زیادہ زور سے بند کر چکے تھے کہ جتنا زور سے انہوں نے آتے ہوئے  کھولا  تھا ، اسی لئے باوجود کوشش کے میں کوئی جواب نہ دینے سکا۔یکبارگی یہ خواہش بھی دل میں پیدا ہوئی کہ خوف اور ڈر کو بالائے طاق رکھتے ہوئے احقر صاحب سے ٹکر لے ہی لوں اور ان کے کمرے کے عین سامنے جا کر چیخ چیخ کر سارے ہاسٹل کو بتا دوں کہ یہ ہے میرے ارتکاز کو توڑنے والا شخص ، اور یہ بھی کہ اگر کل کلاں کو توجہ کے منتشر ہونے کی وجہ سے مقابلے میں دوسری یا تیسری پوزیشن آ جاتی ہے تو جس جس کا قرضہ ادا ہونے سے رہ جائے گا اس کا ذمہ دار یہی نامعقول اور نا ہنجار قسم کا بے تکا شاعر ہو گا۔ وہ تو شکر ہے کہ ہمارے اٹھنے سے پہلے ہی بجلی دوبارہ آ گئی اور ہم دمدار کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کا ارادہ ترک کے دوبارہ لکھنے بیٹھ گئے اور  اپنا معرکۃ الآراہ مضمون مکمل  کرنے لگ گئے ۔ ہم نے کیا لکھا اور کیسے لکھا یہ قصہ پھر سہی، لیکن خلاصہ یہ ہے کہ  اسی رات ہم نے مضمون مکمل کر کے  اشتہار میں مذکور پتے پر ارسال کردیا۔ اور اگلے دن ان سب لوگوں سے کہ  جن سے نقد یا جنس  کی صورت ادھار لیا ہوا تھا  جذبہ خیر سگالی کے تحت ملاقات کر کے اس دن قرضہ ادا کرنے کی خوشخبری سنا دی کہ جس دن انعامی رقوم تقسیم ہونی تھیں۔ کچھ لوگوں نے یقین کیا، کچھ نے ہمیشہ کی طرح کیے جانے والے وعدوں کی طرح اسے بھی ایک دلاسہ ہی سمجھا اور ایک حسرت بھری نگاہ ہم پر ڈال آنکھوں ہی آنکھوں میں کہنے لگے کہ

 خوشی سےمر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

اور کچھ  خوش گمان حضرات پر  تو شادی مرگ کی سی کیفیت  بھی  طاری ہو گئی۔

انتظار کی گھڑیاں ہم سے کٹتی نہ کٹتی تھیں، بڑی شدت سے ہم مقابلے کے نتائج کا انتظار کر رہے تھے۔ اور بالآخر وہ روز سعید بھی آ پہنچا جب ہمارے قلم کی کاٹ پر داد و تحسین کے ڈونگروں کے ساتھ ساتھ انعامی رقم کی  بھی برسات  ہونی تھی۔ہم ہر طرح سے تیار تھے۔ نتائج کے اعلانات کے ساتھ ہی ہماری شان میں مدح سرائی کے لئے دمدادر صاحب خصوصی نظم لکھ کر لائے تھے اور پڑھنے کے لئے بالکل تیار بیٹھے تھے۔ کمرے میں دوستوں کی ایک کثیر تعداد،[ جن میں سے اکثر کے ہم مقروض تھے]،  موجود تھی جس کی وجہ سے تل دھرنے کو جگہ باقی نہ رہی تھی۔ سارے احباب گرمی اورحبس سے بے نیاز کمپیوٹر پر نظریں جمائے دم بخود کھڑے تھے۔ ہم نے بڑے اشتیاق کے ساتھ ، نتائج والی ویبسائٹ کھولی  اور ایک طائرانہ نظر اس ہجوم  میں کھڑے لوگوں پر ڈالی جو ہم جیسا بننے کی آس لے کر حسرت بھری نگاہوں سے اس اسکرین کو تک رہے تھے، جس پر ہمارے فاتح ہونے کا اعلان کچھ ہی لمحوں میں ہونے والا تھا۔ فاتحانہ جذبات سے مغلوب ہو کر یکایک یہ لوگ مجھے بہت قابل ترس اور قابل رحم لگنے لگےکہ جو دکھنے میں بالکل میری طرح تھے مگر ان کے قلم میں مجھ سا زور نہ تھا۔ ان کو دلاسہ دینے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے  کہ سخت محنت  کے ذریعے سے وہ بھی مجھ سا مقام پا سکتے ہیں ،ایک مختصر سا خطاب کرنے کی خواہش دل میں انگڑائیاں لے کر بیدار ہونے ہی لگی تھی جب نتائج کے اعلان کا نوٹیفیکیشن اسکرین پر جھلملانے لگا۔

بیساختہ ’’ ہم ہے شاہین شاہ پر ‘‘ والا نغمہ منہ سے گنگناہٹ بن کر نکلنے لگا، اور ہم نے پہلی پوزیشن والے آپشن پر کلک کیا۔ سامنے کسی حامد خیابانی کا نام آ گیا۔

ہجوم میں چہ می گوئیاں شروع ہو گئیں مگر ہمارا اعتماد تھا کہ متزلزل ہی نہ ہوتا تھا۔

‘‘دمدار، تمہاری وجہ سے پہلی پوزیشن ہاتھ سے گئی۔’’

ایک غضب بھری نگاہ اس کی طرف ڈالتے ہوئے ہم نے پورے یقین کے ساتھ دوسری پوزیشن والا آپشن کھولا۔

’’ہائیں ، یہ میرا نام انہوں نے  جمشید  گلستانی کیوں لکھا ہوا ہے؟؟‘‘

بوکھلاہٹ میں ہمارے میں سے نکل گیا۔ دمدار جو پہلے ہی تاو کھا کر بیٹھا تھا، طنزیہ انداز میں بولا ، ’’ذرا تیسری پوزیشن   دیکھنا ، گرمی کی وجہ سے شاید دوسری پوزیشن بھی ہاتھ سے نکل گئ ہو۔‘‘

کمرے کا ماحول کچھ بدل سا رہا تھا۔ وہی آنکھیں جن میں حسرت  نظر آ رہی تھی اب تمسخر سے بھرتی جارہی تھیں۔ قرض داروں کی آنکھوں میں روشن امید کے دیے  سے   نا امیدی کی ایندھن پا کر اچانک سے بھڑک  اٹھے اور  برستے ہوئے شعلوں کی صورت اختیار کر گئے۔

ہمارے حواس  بھی کچھ کچھ گم ہو نے لگے۔ یعنی کہ گویا، ہم پوری طرح ہواس باختہ نہ ہوئے تھے مگر ٹانگوں کی ہلکی سی تھرتھراہٹ، ہتھیلی پر پیدا ہونے والے اضافی  پسینہ، اور شاہین شاہ پر والے نغمے کی جگہ لینے والا  ’’جل تو جلال تو ‘‘  کا ورد واضح اشارہ دے رہا تھا حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں ہیں۔

بہرحال ایک کھوکھلی سی مسکراہٹ کے ساتھ ہم نے تیسرا نام کھولا ۔ نام کیا تھا ، یہ تومعلوم نہیں، لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ وہ نام کسی صنف نازک کا تھا اور کچھ زیادہ ہی زنانہ نام تھا۔ یقین جانئے کہ اس نام میں مردانگی کا تھوڑا سا بھی شائبہ ہوتا تو  شاید ہم یہ دلیل پیش کرنے سے بالکل نہ چوکتے  کہ ہم نے اپنے ’’قلمی نام ‘‘ سے مضمون لکھا تھا اور یہی ہمارا قلمی نام ہے۔

آخری جملہ جو ہم نے سنا اور جو ہمیں یاد رہ  گیا ، وہ یہ تھا کہ ’’مارو ، دھوکے باز کو‘‘

 اور مصدقہ اطلاعات  کے مطابق آخری بات جو ہم  نے مار کھا کر بےہوش ہونے سے پہلے احقرد دمدار کو مخاطب کر کے کی ،وہ یہ تھی کہ ’’احقر، نوحہ کیوں نہ لکھ لائے‘‘؟؟

Zeal Policy
Print Friendly, PDF & Email