موسم گرما، مقابلہ مضمون نگاری اور ہماری داستان غم!! پہلی قسط

 ہاسٹل میں قیام پذیر ایک خود ساختہ ادیب کی مقابلہ مضمون نگاری میں شرکت کی رنگین و سنگین  روداد

یقین جانیے ہم نے ہر موسم میں ، اور ہر موضوع پر لکھا ہے۔ قادر الکلامی کا یہ عالم ہے کہ نہ صرف لکھا ہے ، بلکہ سب کچھ لکھا ہے۔ غزل ، نظم ، کہانی ، افسانہ، ڈرامہ الغرض ادب کی وہ کونسی صنف ہے جس پرہم نے ہاتھ صاف نہ کیا ہو۔

ہاں البتہ مخالفین کے اس الزام کو تعصب کا نام ہی دیا جا سکتا ہے کہ لکھنے کے دوران ہم سے کچھ ایسی فاش غلطیوں کا ارتکاب ہو جاتا ہے کہ اگرسہوا  بھی ہماری کوئی تحریر کسی رسالے یا جریدے  میں شائع ہو جائے، تو اسے  ادب کے ماتھے پر ایک بدنما داغ کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

اور ایک مجھ پر ہی کیا منحصر ، یہ تو ایک آفاقی حقیقت  ہے کہ ہر چڑھتے سورج کو پجاری نصیب نہیں ہوتے بلکہ کچھ چراغوں کو بجھانے کے لیے تو مخالف سمت سے آندھیاں بھی بڑے زور و شور سے چلتی ہیں۔بہر کیف،   تحریر کا مقصد  چونکہ  ہماری ادبی صلاحیتوں پر نقد  نہیں ہے اسی لیے باوجود خواہش کے میں اپنی تخلیقات کے شاہکار اور حاسدین کے کور ذوق ہونے پر وہ دلائل نہیں لا پاؤں گا کہ جنہیں پڑھنے کے بعد تمام قارئین میری ادبی قد و کاٹھ کے قائل ، اور مخالف گروہ کے ان پڑھ ہونے تک کی گواہی دینے پر تیار ہوجائیں ۔ ویسے بھی ، اکثر اعتراضات ہماری تحاریر کے ناقابل فہم ہونے پر ہوتے ہیں اور ہم  اس حوالے سے مطمئن ہیں کہ بڑے لکھاریوں کو سمجھنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔

آمدم بر سر مطلب، باوجود یہ کہ ہم تحاریر کے معاملے میں اس قدر خود کفیل ہیں کہ روزانہ دو تین شہپارے [بزعم خود] ضرور تراشتے ہیں، موسم گرما میں  میں  لکھنے کی صلاحیتیں ایسے غائب ہوجاتی ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ،  یا گرمی کے مہینے میں بجلی۔

اوپر سے ستم یہ  کہ  کچھ عرصہ قبل  بذریعہ فیس بک مضمون نگاری کے ایک ایسے مقابلے کا علم بھی ہوا جس کا پہلا انعام پچاس ہزار روپے تھا۔ یقین جانیے، مال و زر کی لالچ ہمیں کبھی نہیں رہی اور نہ ہی کبھی دولت کی ہوس چھپ چھپ کر دل میں تصویریں بنانے میں کامیاب ہوئی، مستزاد اس امر پر یہ کہ ہماری سستی اور کاہلی نے بھی بار بار تنبیہ کی کہ  اس مقابلے میں حصہ لینے کی حماقت نہ کر دیجیو ۔ پسینے میں انگلیاں ڈبو ڈبو کر جملے ترتیب دینے کے بعد بھی انعام سے محروم رہے  تو مقابلے کے منصفین کی جہالت پر غصہ نہ بھی آیا تو،  ’’ٹیلنٹ‘‘ کی ناقدری کا احساس باؤلا کر ہی ڈالے گا۔اگرچہ گرمی کی شدت ، ان انقلاب آمیز  افکار کی گرمی سے کئی درجہ بڑھ کر  تھی  جو  اس مقابلے میں  حصہ لینے کے لیے اکسا رہی تھیں مگر پھر بھی دل ناتواں نے  شرکت کرنے  کی  اس لیے ٹھان لی  کہ یکے بعد دیگرے ہمیں ہاسٹل کی کینٹین، پڑوس کی مارکیٹ  کی دکانوں اور دوستوں سے وقتا فوقتاّ جلد ادائیگی کا وعدہ کر کے لیے جانے والے  وہ ادھار یاد آیا جنہیں لیے ہوئے اتنا عرصہ ہو چکا  کہ اب یہ بھی یاد نہیں کہ قرضہ لیا کس سلسلے میں تھا۔ ادھار  چکانے کا  آسان اور واحد حل یہ لگا کہ  دل پر گزرنے والے حالات رقم کر کے یہ مقابلہ جیت جائیں۔ ورنہ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ کچھ ہی دنوں میں سبھی کھاتہ دار شرافت اور وضعداری کا چولا اتار کر دروازے پر آ کھڑے ہونے کے لیے بالکل تیار بیٹھے ہیں۔

تمام تر سوچ بچار کے بعد یہ نتیجہ اخذ ہوا  کہ اب پرورش لوح قلم ہی بچی کھچی عزت بچانے کا واحد ذریعہ ہے سو فیصلہ  کر بیٹھے کہ ایک دھماکے دار مضمون لکھ ڈالیں ، اور جلد از جلد مقابلے کے لیےارسال کر دیں۔

چنانچہ ہم نے  قلم اٹھا، کاغذ سمیٹ اور[خوش قسمتی سے]  پوری رفتار سے چلتے ہوئے پنکھے کے عین نیچے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے اور مضمون کا آغاز کرنے کے لیے موزوں خیالات اور مناسب الفاظ کے پردہ ذہن پر نمودار ہونے کا انتظار کرنے لگے۔

کافی سوچ  بچار کے بعد ایک خوشنما جملہ مترتب ہوا ہی چاہتا تھا اور ہم اس کی نوک پلک سنوارنے کے لیےمزید غور و خوض کی خاطر قلم کو یہ کہہ کر روکے ہوئے تھے  
اپنے سینے میں ذرا اور اسے تھام ابھی

اور عین اس لمحے کہ جب تمام تر ادبی اور فنی پہلوں کی جانچ پڑتال کے بعد  قلم کی نوک    صفحہ’’ رجسٹر‘‘ پر ایک معرکتہ الآرا جملہ رقم کر ڈالنے کے غرض سے حرکت میں آ رہی تھی ، کھٹاک سے بجلی چلی گئی۔

گرمی کی در آنے والی لہر اور اچانک ذہن میں اُمنڈ آنے والے بے بسی کے جذبات کے سیلاب کے آگے ہمارا ارتکاز تو ریت کی دیوار ثابت ہوا سو ہوا، مضمون کے وہ فقرے بھی ’’وزارت بجلی ‘‘ کی شان میں پردہ ذہن پر پر فی البدیہہ نمودار ہونے والے قصیدے کی بے ساختگی تلے دب گئے ، جو آدھے گھنٹے کی ذہنی مشقت کے بعد تراشے تھے ۔ رہی سہی کسر ہاسٹل کے دیگر کمروں سے آنے والی عجیب الخلقت آوازوں نے پوری کر دی جو ہر بار بجلی جانے کے بعد یوں فضا میں بلند ہوتی تھیں جیسے کئی بد روحیں مل کر چنگھاڑتے ہوئےماتم کر رہی ہوں ۔ ایک لحظے کو تو سارا غصہ پس پشت ڈال کر اتنی عجیب و غریب نوعیت کی آوازیں نکالنے والوں کی "صوتی صلاحیتوں” پر  رشک کرنے کو جی کرنے لگا۔

 کچھ دیر تک اسی گومگو کے عالم میں بیٹھے رہے ، اور پھر اٹھ کر ٹیبل لیمپ جلاتے ہوئے سلسلہ تحریر دوبارہ جاری کرنے کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ دھڑام سے دروازہ کھلا اور ہمارے ساتھ  والے کمرے میں رہنے والے احقر دمدار ["د” زبر کے ساتھ] اپنے قوی الجثہ وجود کے ساتھ اندر داخل ہوئے۔ موصوف میں  ہمارا سائیڈ روم میٹ ہونے کے علاوہ ایک اور خامی یہ بھی ہے کہ شعر گوئی کی کوشش میں اکثر یاوہ گوئی کرنے لگ جاتے ہیں۔ ’’دمدار‘‘ تخلص کرتے ہیں، اور وجہ اس کی یوں بیان کرتے ہیں کہ

  "میرے  قلم میں اتنی طاقت ہے کہ  بڑے سے بڑے شعراء کا  "دم” بھی میرے اشعار کا وزن  سہنے کی تاب  نہ لاتے ہوئے گھٹ جاتا ہے۔ "

یہ الگ بات ہے کہ ان کے شعر پر نظر ڈالنے کے بعد تھوڑا سا  ادبی  ذوق رکھنے والے فرد بھی سینہ کوبی کرنے کے لیے بے قرار ہو جاتا ہے کہ آخر ایک ہی شخص اتنی ساری غلطیوں کا ارتکاب اس قدر تواتر اور تسلسل کے ساتھ کیسے کر سکتا ہے؟ مگر آج تک دمدار صاحب کبھی اپنی غزلو ں کی تصحیح کرانے پر راضی نہیں ہوئے کیونکہ بقول ان کے وہ پیدائشی شاعر ہیں، اور یہ سیکھنا ویکھنا مصنوعی شاعروں کا کام ہے۔

 دمدار صاحب دروازے کھولتے ہی ایسے ہماری طرف لپکے جیسے کوئی بدمست ہاتھی کسی بات پر تاوّکھا کر اپنے مہاوت کو کچلنے نکل پڑے اور بڑی گرم جوشی سے ہماری پیٹھ  پر مکا نما تھپکی دے کر بولے  ،’’ اور سنائیے حضرت ، کیا نئی تازی ہے؟‘‘

 ایک تو ہمارا منحنی وجود اور پسینے سے تربتر کمر، اوپر سے دمدار کے بھاری بھرکم ہاتھ ۔

جی تو یہ چاہ رہا تھا کہ اس حرکت پر کچھ دیر قبل بجلی والوں کی شان میں ذہن میں در آنے والا قصائدکچھ مزید اضافوں کے ساتھ لگی لپٹی رکھے  بغیر ان کو سنا کر ہی دل کی بھڑاس نکال ویں۔ مگر وائے افسوس، کہ مروت کے علاوہ یہ امر بھی اس ارادے کی راہ میں مانع ہوا   کہ دمدار صاحب اپنے مخالفین کے بارے میں ناقابل اشاعت الفاظ پر مشتمل نظمیں لکھ کر نوٹس بورڈ،  میس کی دیوار  اور یونیورسٹی کی کینٹین، الغرض ہر اس جگہ پر چسپاں کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں  کہ جہاں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی نظر  اس انتقامی کاروائی پر پڑ سکتی ہو۔  عموما کہا جاتا ہے کہ سانپ کا ڈسا پانی نہیں مانگتا، مگر ہمارے حلقہ احباب میں اس ضرب المثل کی جگہ یہ فقرہ مشہور ہے کہ ’’دمدار کا ڈسا ہوا پھر عزت دار ہونے کا دعوا نہیں کر سکتا ‘‘۔

سو ہم نے بھی مجبورا، چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ طاری کرتے ہوئے انہیں خوش آمدید کہنے میں ہی عافیت جانی اور بتا دیا کہ لوڈشیڈنگ کی مشقت کے ساتھ مشق سخن جاری ہے۔ دمدار صاحب نے یہ سن کر جس مشکوک انداز میں ہمیں گھورا، اس سے یہ تو واضح ہو گیا کہ انہیں ہماری طبیعت کے طرفہ تماشہ ہونے کا گمان گزرا ہو یا نہیں، ہمارے ذہنی توازن کے خراب ہونے کا یقین ضرور ہو گیا ہے۔

جاری ہے ۔

Print Friendly, PDF & Email