پرنس کریم آغاخان کا دورۂ چترال(شہزاد فخر الملک کی آپ بیتی طاق نسیان کا ایک ورق)

لٹکوہ  کے عرصۂ ملازمت کے دوران کئی گورنر ،وزرائے اعلیٰ اور سربراہانِ مملکت گرم چشمہ آئے۔ان دوروں میں سے ایک یادگار دورہ ۶ مارچ ۱۹۷۶ ء میں اسماعیلی فرقے کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغاخان  اور ان کی بیگم سلیمہ آغاخان کا تھا۔یہ مہمان اس وقت  کے وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار  علی بھٹو کے ہمراہ چترال کے دورے پر آئے  اور کچھ وقت کے لیے گرم چشمہ بھی آئے ۔

مقامی لوگوں کا جوش خروش قابل دید تھا ۔علاقے کے ۹۶ فیصد لوگ اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھتے تھے ۔اُن کے آباؤ اجداد اپنے روحانی پیشوا کی دیدار کے شوق میں کئی قسم کی صعوبتیں اور سفر کی تکالیف جھیل کر کشاں کشاں بمبئی جاتے اور کئی ماہ کے انتطار کے بعد ان کے حسرت دید کی آرزو رنگ لاتی۔زائر کے پاس جب واپس گاؤں لوٹ آتا تو لوگ  گرم جوشی سے اس کا استقبال  کرتے ،ہاتھ چومتے ،اور آنکھوں سے لگاتے  اور اس کا بڑا احترام کرتے ۔زائر کے پاس جو چھوٹے چھوٹے تبریکات آغاخان کے عطاکردہ ہوتے  وہ لوگوں میں تقسیم کرتے ۔

تقسیم ہند کے بعد ہزہائینس سر سلطان محمد شاہ خان آغا خان سوئم سال میں ایک یا دو بار کراچی تشریف لائے ۔کراچی میں اس فرقے کے ذمہ دار افراد چترال کے اسماعیلوں کو پرنس کریم آغاخان کی آمد کے پروگرام سے آگاہ کرتے تو مشتاقاں دیدار گرتے پڑتے کراچی پہنچ جاتے ،کئی کئی دنوں کے انتطار کے بعد کہیں جاکر انہیں شرفِ دیدار نصیب ہوتا ۔اس لیے اس جذباتی پس منظر میں پرنس کریم آغا خان کا بہ نفس نفیس ان کے علاقے میں آکر ان کی مجموعی آبادی بشمول مردو خواتین اور بچوں کو شرفِ دیدار بخشنا اسماعیلی فرقے کے لیے ایک بہت بڑ ا واقعہ تھا۔ اس موقع پر اسماعیلی برادری کے افراد کا جوش و خروش دیدنی تھا ۔   بقول مرزا غالب ؔ:

قیامت ہے کہ سن لیلیٰ کا دشت ِ قیس میں آنا    تعجب سے وہ بولے یوں بھی ہوتا ہے زمانے میں

جوں جوں پرنس کریم آغاخان کی آمد کی تاریخ قریب آرہی  تھی عوام کے جوش و خروش  اور استقبال کی تیاریوں میں بھی مزید گرمی اور شدت آرہی تھی ۔مشتاقانِ دید  کے ساتھ ساتھ ہم بھی لطف اندوز ہورہے تھے ۔

خبرِ وصل  چون شود نزدیک        آتشِ شوق تیز تر گردد

اس موقع پر خانقاہ ناصرِ خسرو ؔ کے مضافات کو شامیانوں ،خیر مقدمی بینروں اور استقبالی جھنڈیوں سے سجایا گیا ۔جس راستے سے معزز مہمان کو گزرنا تھا اس راستے پر قیمتی اور نادر غالیچے اور قالین بچھائے گئے تھے ۔نشست گاہ قیمتی صوفوں ،گدیلوں  اور بیش قیمت فرش سے مزین تھی ۔تحصیل  لٹکوہ میں دوسرے علاقوں سے آنے والے عقیدت مندوں کا جم غفیر تھا ،ہر زبان پر یہی بات  تھی کہ       ٹھہر اے دل جمال ِ روئے زیبا ہم بھی دیکھیں گے

سرکاری افسراں بھی معزز مہمان کے استقبال اور دورے کے انتظامات کی نگرانی کے سلسلے میں کثیر تعداد میں گرم چشمہ میں موجود تھے ،میں بحیثیت تحصیلدار علاقہ  ان میں موجود تھا ۔مہمانوں کا قافلہ تین ہیلی کاپٹروں میں مقررہ وقت پر گرم چشمہ پہنچا ۔پہلے ہیلی کاپٹر میں پرنس کریم آغاخان ،ان کی بیگم کے علاوہ بھٹو مرحوم  اور بیگم نصرت بھٹو سوار تھے۔باقی دو ہیلی کاپٹروں میں ملک کی دیگر اہم شخصیات اور گورنر وغیرہ سوار تھے ۔معزز مہمانوں کا یہ قافلہ خانقاہ ناصر خسرو کی طرف روانہ ہوا تو اسماعیلی برادری کے مقامی اکابرین کی درخواست پر انتظامیہ نے اسماعیلی مسلک کے لوگوں کے سوا کسی دوسرے شخص کو خانقاہ کے احاطے میں داخل ہونے سے روک دیا ۔میں خود بھی ان اکابرین کی خواہش کے احترام میں اس تقریب میں نہیں گیا ۔ وہاں سراپا عقیدت تھی ،جذبہ ٔ سپردگی تھا۔لوگ وہاں دنوں سے انتظار میں تھے ۔نہ بھوک کی فکر  اور نہ سردی کی پرواہ،اپنی آرزؤں کے محور اور تصوراتی محبوب کو جیتے جاگتے اپنے سامنے پاکر وہ محوِ حیرت تھے۔ان کی زبانیں گنگ ہوگئی تھیں ۔چہرے آنسؤں سے تر تھے ۔آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کا  یارا کسی میں نہ تھا ۔اسماعیلی بوڑھوں کا یہ کہنا تھا کہ”حاضر امام” کو دیکھنا ان کے بس کی بات نہیں کہ اس طرح ان کے "آنکھوں کے چراغ ” یعنی بصارت چلی جائے گی ۔کیفیت یہ تھی گویا

تیر غمت کہ بر سپر سینہ ام رسید       دل را شگاف بر جگر آمد زجان گزشت

خانقاہ سے واپسی پر پرنسس سلیمہ آغاخان اور بیگم نصرت بھٹو نے گرم چشمہ کا منبع دیکھنے کی خواہش کی تو میں نے ان کی رہنمائی کرتے ہوئے انہیں جامع مسجد گرم چشمہ اور آس پاس کے گرم پانی کے ابلتے چشمےدکھائے ۔بیگم نصرت بھٹو کی خواہش  پر گرم چشمہ میں کورنر کاٹیج کی تعمیر اسی سال شروع ہوئی ۔

 

Print Friendly, PDF & Email