ہم پاکستانی سوٹ پر آپ کو پانچ روپے بھی کم نہیں کر سکتے

انڈیا میں فیشن کی دنیا سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ دلی ہو یا سورت، پنجاب کا شہر امرتسر ہو کہ لدھیانہ پاکستانی کپڑوں کی مانگ ہر جگہ ہے۔

چنانچہ ساحر کے شہر لدھیانہ میں ایک خاتون پونیت کور نے اپنی ملبوسات کی دکان کا نام ہی ’پاکستانی اٹائر‘ رکھ لیا ہے جس کے چرچے سرحد کے دونوں پار ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ دکان تو وہ گذشتہ سات آٹھ برسوں سے چلا رہی ہیں لیکن گذشتہ دنوں کسی نے ایک سوشل میڈیا گروپ پر اُن کی دکان کی تصویر کیا ڈالی کہ انھیں ہر جانب سے فون کالز آنے لگیں۔ یہاں تک کہ پاکستان کے لوگ ان سے ملاقات کی خواہش کرنے لگے۔

پنیت کور نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ جب وہ شادی کر کے دہلی سے لدھیانہ پہنچیں تو اُن کے لباس کی تعریف ہوئی۔ ان کی سہیلیوں نے ان سے ان کے جیسے کپڑوں کی فرمائش کی اور انھوں نے دہلی سے منگوا کر انھیں پاکستانی سوٹ دیے۔

انھوں نے کہا کہ ’پاکستانی سوٹ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے مجھے خيال آيا کہ کیوں نہ اپنی برانڈ کا نام ہی پاکستانی سوٹ کے لحاظ سے رکھ دوں۔ میں نے اپنے رشتہ داروں اور سہیلیوں سے اس پر تبادلہ خیال کیا۔ میرے شوہر کو بھی یہ بات پسند آئی اور ہم نے کوئی سات آٹھ سال پہلے پاکستانی اٹائر کے نام سے ایک دکان کھولی۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’انڈیا پاکستان ہریٹیج کلب‘ میں کسی نے ان کے دکان کے سائن بورڈ کی ایک تصویر پوسٹ کر دی جس کے بعد ان کی دکان کا نام وائرل ہو گیا۔

ہم نے جب فیس بک پر موجود اس کلب کو دیکھا تو وہاں ہم نے پایا کہ جسبیر سنگھ جوگی نامی شخص نے یہ پوسٹ ڈالی تھی جسے تقریباً ساڑھے چار ہزار لوگوں نے لائک کیا تھا جبکہ 500 سے زیادہ افراد نے اس پر تبصرہ کیا تھا اور ان میں سے تقریبا تمام مثبت کمنٹس ہیں۔

پاکستان سے کسی نے لدھیانہ کے بارے میں لکھا کہ ’وہ میرے والد کی جائے پیدائش ہے‘ تو کسی نے لکھا کہ پاکستان میں بھی ’بمبئی بریانی‘، ’شملہ کلاتھ ہاؤس‘، ’لدھیانہ سویٹ شاپ‘ نامی دکانیں ہیں۔

بہر حال پونیت کور نے بتایا کہ اس کے بعد سے انھیں میڈیا سے اور چہار جانب سے فون کالز آنے لگيں۔

انھوں نے اپنی دکان کے بارے میں مزید بتایا کہ ’شروع میں ہمارے گاہک لگے بندھے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ ہمارا بزنس بڑھتا گیا اور آج لوگ اس نام سے دوسرے شہروں میں دکان کھولنے کے لیے ہم سے رابطہ قائم کر رہے ہیں، یعنی فرنچائز لینے کے لیے۔‘

انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں آنے والے نشیب و فراز کے پیش نظر پاکستانی کپڑوں کی درآمد کس قدر آسان یا مشکل ہے اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ وہ براہ راست پاکستان سے ملبوسات درآمد نہیں کرتیں بلکہ دہلی اور دوسرے شہروں کے بڑے درآمد کنندگان سے سوٹ حاصل کرتی ہیں۔

انڈیا ملبوسات تیار کرنے میں دنیا میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے اور یہاں ہر قسم کے ملبوسات بڑے پیمانے پر تیار کیے جاتے ہیں۔

انڈین حکومت کے مطابق انڈیا میں ٹیکسٹائل کے شعبے کی سالانہ مالیت لگ بھگ ایک کھرب ڈالر ہے جو کہ مجموعی ملکی پیداوار کا دو فیصد ہے اور ملکی برآمدات میں اس کا حصہ 12 فیصد ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ سنہ 2025-26 تک وہ اس کاروبار کو ایک کھرب 90 ارب امریکی ڈالر تک لے جانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔

دوسری جانب حکومت پاکستان کے مطابق کپڑوں کے معاملے میں پاکستان ایشیا کا آٹھواں سب سے بڑا ملک ہے اور لاکھوں لوگ اس شعبے سے وابستہ ہیں۔

انڈیا کی کپڑوں کے بازار کا حجم پاکستان سے کہیں بڑا ہے اور یہاں ہینڈ لوم سے لے کر بڑی ملیں اور ہر سطح کے کارخانے ہیں تو پھر ایسے میں پاکستانی سوٹ کی انڈیا میں مانگ کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟

لدھیانہ میں ’ووگ‘ نام کی بوتیک چلانے والی ایک بزنس وومن سجاتا تھمن عرف ’روزی‘ کہتی ہیں کہ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ’پاکستان کے کاٹن کی قسم اچھی ہوتی ہے، وہ زیادہ نرم ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ان میں زری کے بھاری اور مہین و نازک کام ہوتے ہیں۔‘

انھوں نے بھی کپڑوں کا شوقیہ کام شروع کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے لدھیانہ میں تیار ہونے والے گرم کپڑے کے ایک سوٹ کیس سے اپنا بزنس شروع کیا تھا اور اب ان کا بوتیک ہے۔ ان کے اس شوق میں اُن کے شوہر نے ان کا ہاتھ بٹایا اور یہ شوق اتنا پروان چڑھا کہ انھوں نے اپنی ایک بیٹی کو فیشن ڈیزائننگ کا کورس تک کرایا۔

ان کی بیٹی اپوروا اب اپنا بزنس کرتی ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انڈیا اور پاکستان میں تیار ہونے والے سوٹ کے فرق کی وضاحت کی اور کہا کہ ان میں کڑھائی کا فرق ہوتا ہے اور وہ قدرے لوز فٹنگ کے ساتھ ہوتے ہیں۔

جبکہ ان کی والدہ روزی نے کہا کہ ’انڈیا میں پاکستانی کپڑوں کا چلن پاکستانی ڈرامے کی دین ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہاں کے ڈراموں میں جو ملبوسات دکھائے جاتے ہیں اور اس کے ساتھ جو زبان استعمال ہوتی ہے وہ سب مل کر اس ثقافت کے معیار کی بلندی کو پیش کرتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی سوٹ کی مانگ انڈیا یا دوسری جگہ نظر آتی ہے۔‘

انھوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ ہر چند کہ اب یہ دو ممالک ہیں لیکن ان کے لوگوں میں اب بھی کہیں نہ کہیں لگاؤ ہے۔ مثال کے طور پر ان کے والدین سرحد پار پاکستان میں پیدا ہوئے تھے اور وہ سب تقسیم ہند کے بعد لدھیانہ آ کر آباد ہوئے۔

پونیت کور نے کہا کہ انھوں نے اپنی دکان کا نام ’پاکستانی اٹائر‘ تو رکھا ہے لیکن پاکستانی سوٹ تقریباً ہر دکان میں ملتے ہیں اور پہلے سے ملتے رہے ہیں۔

اس بات کی تصدیق ایک دوسرے دکاندار نے بھی کی اور انھوں نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ ’انڈیا کے باہر سے جو غیر ملکی آتے ہیں وہ بھی پاکستانی سوٹ کی مانگ کرتے ہیں۔ اور یہاں ہر دکان میں آپ کو پاکستانی سوٹ مل جائے گا۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا ’اس بازار میں مقابلہ اتنا سخت ہے کہ ہم پاکستانی سوٹ پر آپ کو پانچ روپے بھی کم نہیں کر سکتے۔‘

دوسری جانب پونیت کور سے بات چیت کے دوران ہم نے دیکھا کہ انھوں نے کئی سوٹ مختلف داموں میں فروخت کیے اور کسی بھی گاہک کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیا۔ 1500 روپے سے لے کر تین ہزار کے درمیان انھوں نے سوٹ فروخت کیے جبکہ ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس دس ہزار روپے مالیت تک کے سوٹ بھی ہیں۔

میں نے یہی سوال روزی سے کیا کہ دہلی میں بھی ہم نے دکانوں میں یہ لکھا دیکھا ہے کہ ’ہمارے یہاں پاکستانی سوٹ ملتے ہیں‘ اور لدھیانہ میں بھی تقریباً ہر دکان میں پاکستانی سوٹ دستیاب ہیں تو کیا پاکستان سے اتنے سوٹ برآمد ہوتے ہیں۔

میرے اس سوال پر انھوں نے کہا کہ گجرات کے شہر سورت میں ہر چیز کی نقل فورا تیار کر لی جاتی ہے اور یہی بات پاکستانی سوٹ کے ساتھ بھی ہے۔ اب یہ پہچان مشکل ہو گئی ہے کہ کون سا سوٹ واقعتاً پاکستان سے آیا ہے اور کون کی نقل انڈیا میں تیار ہوئی ہے۔’

’کترن‘ نامی بوتیک چلانے والی ایک خاتون اور ان کی ڈیزائنر بیٹی سمرن چاولا نے بتایا کہ انڈیا میں پاکستانی سوٹ کی بڑی مارکیٹ ہے اور اسی وجہ سے ہر دکاندار پاکستانی سوٹ کے نام پر کچھ نہ کچھ رکھتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان میں خاتون کا اصل پہناوا ہی سوٹ ہے اس لیے بڑے بڑے برانڈز بھی اب چکن کے ہلکے اور بھاری سوٹ تیار کر رہے ہیں۔

جبکہ روزی نے بتایا کہ یہاں پاکستانی سوٹ تحفے میں دینے کا بھی رواج ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’جس طرح اگر آپ پاکستان میں کسی خاتون کو ساڑھی تحفے میں پیش کریں تو وہ خوش ہو جائے گی اسی طرح اگر انڈیا میں کسی کو پاکستانی سوٹ تحفے میں دیا جائے تو وہ خوش ہو جاتا ہے۔‘

لدھیانہ میں جس سے بھی بات کی وہ بزنس اور امن کی بات کرتے ہیں لیکن کسی سیاسی بیان سے اجتناب کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ پونیت کور نے اپنے سپلایر کا ذکر کرنے سے بھی گریز کیا۔

واضح رہے کہ گذشتہ برس انڈیا کے شہر ممبئی میں ایک سو سال سے زیادہ عرصے سے چلنے والی ’کراچی بیکری‘ کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے اور دکان والے کو اس نام کو بدلنے کو کہا گیا تھا ایسے میں پاکستان اٹائر کے نام سے دکان کھولنا بہت جرات کی بات کہی جا سکتی ہے۔

Png News Icon Itravelpages Png Urdu Bbc Logo Newspictures - Bbc Kids,  Transparent Png - 2276x558(#2047749) - PngFind

Print Friendly, PDF & Email