جنگلی حیات کا عالمی دن اور چترال کے جنگلی حیات کے ہیڈ کوارٹرز دفاتر میں مکمل خاموشی۔ بدقسمتی سے ایک برفانی چیتا بھی مر گیا۔

چترال(زیل نمائندہ) تین مارچ کو ہر سال دنیا بھر میں جنگلی حیات کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن منانے کا بنیادی مقصد عوام میں جنگلی حیات کی اہمیت اور ان کی حفاظت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہوتاہے۔مگر بدقسمتی سے جنگلی حیات کے عالمی  دن سے دو روز قبل ایک نہایت برفانی چیتا مر گیا۔عالمی جنگلی حیات سے ایک دن قبل ہمارے نمائندے نے چترال گول نیشنل پارک کے ڈویژنل فارسٹ آفیسر  سرمد حسین سے رابطہ کیا مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ کل اس دن کو نہیں منا رہے ہیں بلکہ ایک دن بعد منایا جائے گا۔ اس کے بعد  محکمہ جنگلی حیات چترال ڈویژن  کے  ڈویژنل فارسٹ آفیسر الطاف علی شاہ سے بھی بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر ان سے رابطہ نہ ہوسکا۔ ہمارے نمائندے نے محکمہ جنگلی حیات خیبر پحتون خواہ کے چیف کنزر ویٹر

ڈاکٹر محسن حیات سے رابطہ کرکے ان کو پیشکش کی کہ اگر چترال میں محکمہ جگلی حیات یہ دن منارہے ہیں تو ہماری خدمات حاضر ہیں۔
تین مارچ کو علی الصبح  ڈی ایف او الطاف  احمد سے رابطہ ہو اور ان کو پیش  کش کی کہ اگر وہ جنگلی حیات کا عالمی دن منانا چاہتے  ہیں تو ہماری خدمات حاضر ہے اور ہم رضاکارانہ طور پر جہاں اپ چاہے وہاں جاکر اس کی کوریج کریں گے ان کو یہ بھی پیش کش کی گئی کہ اگر محکمہ اس حوالے سے میڈیا میں کوئی اشتہار بھی دینا  چاہے تو اسے بھی ہم مفت لگائیں گے۔ تاہم DFO وایلڈ لایف الطاف احمد کا کہنا تھا کہ ان کے پاس یہ دن منانے کیلئے کوئی فنڈ نہیں ہے البتہ میں نے سنا ہے کہ بختولی میں کوئی وی سی سی والے منانے کی حیال میں ہے ان کو ہمارے نمائندے نے پیش کش بھی کہ اگر جنگلی حیات کا عالمی دن کہیں بھی منایا جارہا ہو تو ہمارا ٹیم اپ کے ساتھ رضاکارانہ طور پر اس کو کوریج دینے کیلئے تیار ہے جس پر انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ ان کو ضرور اطلاع دیں گے تاہم اس کے بعد وہ حاموش رہے اور لگتا ہے کہ ان بے ز بانوں  کا عالمی دن چترال کے  وایلڈ لایف کے کسی بھی دفتر میں بھی نہیں منایا گیا۔
مگر بری خبر یہ ہے کہ چن دن قبل رباط آرکاری وادی میں ایک برفانی چیتا زحمی حالت میں پایا گیا۔ جسے علاج کی عرض سے پشاور چڑیا گھر لے جایا گیا جہاں اس  کا دو روز قبل موت واقع ہوا۔ اس سلسلے میں جب محکمہ جنگلی حیات کے اہلکاروں سے ان کا موقف لیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ برفانی چیتا پہاڑی سے گرا تھا اور زحمی تھا۔ تاہم آزاد ذرایع نے انکشاف کیا کہ وہ برفانی چیتا صبح سویرے ہوں پہاڑ سے نیچے آتے ہوئے دیکھا گیا تھا  بعض لوگوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ اسے مقامی لوگوں  نے پتھر اور ڈھنڈوں سے مار ا بھی  تھا مگر اس کی کوئی دستاویزی شواہد نہیں ملے۔ جنگلی حیات کی تحفظ کیلئے بین الاقوامی تنظیم WWF ورلڈ وایڈ فنڈ فار کنزرویشن  کے حسن اور گلگت بلتستان کے ذمہ دار حیدر رضا سے جب رابطہ کرکے ان سے پوچھا گیا کہ برفانی چیتا بلی یعنی Cat فیملی سے ہے ہمالیہ کے پہاڑوں میں یہ کئی ہزار فٹ اونچائی سے نیچے گرتا ہے مگر کبھی بھی یہ سننے میں نہیں آیا کہ وہ مگر چکا ہے تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کرلی کہ برفانی چیتا جتنا بھی اونچائی سے گرے وہ پنجوں کے بل گرتا ہے اور خود کو بچا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت میں بھی اس قسم کا ایک برفانی چیتا گرا تھا بلکہ وہ اپنی ماں سے جدا ہوا تھا جسے چیف سیکرٹری نے ریسکیو کرایا مگر مرا نہیں بلکہ زندہ سلامت اب امریکہ میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ اس برفانی چیتے کو کسی ڈھنڈوں یا پتھر سے مارا ہو اور  وہ اندرونی طور پر زحمی ہوا ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس کی موت کا ہم سب کو بہت افسوس ہوا  مگر وہ کیسے اور کیوں مرا اب یہ متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اس کی تحقیقات کرے۔ سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کے  سینیر افسر اور جنگلی حیات کے ماہر عاشق احمد خان سے بھی اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا کہ چترال میں جنگلی حیات کے عالمی دن پر خاموشی رہی  اور بدقسمتی سے ایک برفانی چیتا بھی مرگیا۔ عاشق احمد خان نے بتایا کہ جنگلی حیات کے بارے میں عوام میں آگاہی پیدا کرنا بہت ضروری ہے  کیونکہ جنگلی حیات بھی ہمارے ماحولیات کا حصہ  ہے ا ور اس قسم کے دن منانے اور سیمنار کرانے سے لوگوں میں ان بے زبان جانوروں کے ساتھ ہمدردی پیدا ہوتا ہے اور  ان کو بے دریغ مارنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ آرکاری میں ایک برفانی چیتے  کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ پہاڑی سے نیچے گرا اور بعد میں مرگیا تو کیا برفانی چیتا اتنا کمزور ہوتا ہے کہ وہ  معمولی چوٹ سے مرجائے تو انہوں نے اس کی موت پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہمارے ملک میں برفانی چیتوں کی نہات قلعت ہے  اور ان کی زندگی بھی حطرے میں ہے  کیونکہ اکثر زمیندار لوگ اسے مارتے ہیں کیونکہ جب یہ برفانی چیتا بھوکا ہو اور اس کو جنگل میں اپنا حوراک نہیں ملتا ہو تو وہ آبادی  کا رح کرتا ہے اور لوگوں کے پالتو بھیڑ بکریاں کھا کر پنا بھوک مٹاتا ہے  مگر یہ حیرانگی کی بات ہے کہ وہ گر کر کیسے مرا۔

بعض ماہرین نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ یہ برفانی چیتا رات کو یا صبح سویرے گرا تھا  جبکہ چترال سے آرکاری کو دو یا تین گھنٹے  کا راستہ ہے  جب سوشل میڈیا میں جنت رباط کے نام سے فیس بک پیج پر اس برفانی چیتے کی تصاویر اور یہ خبر لگی تھی کہ یہ برفانی چیتا نیچے گر کر زحمی ہوا ہے اور ہم جنگلی حیات کے اہلکاروں سے رابطہ کرتے ہیں ابھی تک کسی نے اس ریسکیو نہیں کیا انہوں نے ڈپٹی کمشنر چترال سے اپیل کی تھی کہ اسے فوری ریسکیو کرے۔  تاہم محکمہ جنگلی حیات کا عملہ وہاں  کافی تاحیر سے پہنچا اور اسے رات گیارہ بجے شفا حانہ حیوانات چترال لایا گیا جہاں ڈاکٹر شیح  نے اسے پشاور ریفر کیا مگر ذرایع نے بتایا کہ یہ پشاور چڑیا گھر اگلے دن دوپہر کو پہنچا اور بعد میں مر گیا۔

اس سلسلے میں ملاکنڈ ڈویژن کے کنزرویٹر جنگلی حیات ڈاکٹر سید فضل باقی کا کاخیل سے بھی رابطہ کیا گیا کہ برفانی چیتے کے بارے میں لوگ الزام لگا رہے ہیں کہ اسے مقامی لوگوں نے ڈھنڈوں اور پتھر وں سے مارکر اندرونی طور پر زحمی کیا تھا  تو ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے مٰں انہوں نے ڈی ایف او چترال  الطاف علی شاہ  کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس سلسلے میں باقاعدہ تحقیقات کرے کہ وہ کیسے مرا۔

ہمارے نمائندے نے جب اس سلسلے میں ڈی ایف او الطاف علی شاہ سے  ان کا موقف جاننے کی کوشش کی  موجود غلام یحی نامی جونیر کلرک نے بتا کہ ڈی ایف او صاحب دفتر میں موجود نہیں ہے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ انکوائیری کا کیا بنا تو ان کو اس بارے میں کوئی معلومات نہیں تھی۔
جنگلی حیات سے محبت کرنے والے اور سماجی کارکنوں نے اس بات پر نہایت افسوس کا اظہار کیا کہ آرکاری میں برفانی چیتا زحمی ہوا   مگر ہیمالیہ کے پہاڑوں پر کئی ہزار فٹ اونچائی سے برفانی چیتے گر جاتے ہیں مگر وہ کبھی بھی نہیں مرے پھر یہ کیسے مگرا۔ اس سے قبل پشاور چڑیا گھر میں ایک مارخور اور ایک برفانی چیتا بھی مرا تھا۔ آیا محکمہ جنگلی حیات کے عملہ کی تربیت نہیں ہوئی ہے، ان کے پاس وسائیل کی کمی ہے یا پھر حلوص اور ایمانداری کی فقدان ہے اس بابت تحقیقات ضرور ہونا چاہئے تاکہ آئندہ اس قسم کے قیمتی اور نایاب  جانور جن  کی تعداد پہلے سے بہت کم ہے وہ معمولی چوٹ سے نہ مرے۔  نیز یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ وہ بھوک پیاس سے تو نہیں مرا اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اگر صبح سویرے وہاں گرا تھا تو رات گیارہ بجے چترال کے حیوانات کے ہسپتال کو اتنی تاحیر سے کیوں لایا گیاابھی ان سب سوالوں کا جواب  باقی ہے چترال کے سیاسی اور سماجی طبقہ فکر نے صوبائی اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ برفانی چیتے کی موت میں تحقیقات کے ساتھ ساتھ چترال ہی میں ایسے سہولیات فراہم کی جائے تاکہ آئندہ اگر کوئی  برفانی چیتا یا دیگر جنگلی حیات زحمی ہوجائے تو اس کا یہاں مقامی سطح پر علاج ہوسکے اور اسے پشاور ریفر کرنے  کی ضرورت نہ پڑے کیونکہ راستہ لمبا ہونے کی وجہ سے اس کا موت بھی واقع ہوسکتا ہے۔  اور اس کا یہاں ہی علاج ممکن ہو۔  نیز WWF اور سنو لیپرڈ  فاؤنڈیشن کے  ماہرین اس بات پر تشویش کا اظہار  کرتے ہیں کہ برفانی چیتا کیٹ یعنی بلی کے فیملی سے ہے  وہ جتنے بھی اونچائی سے گرے  وہ پنجوں کے بل گرتا ہے اور کبھی اس کا کمر نہیں ٹوٹ سکتا۔  برفانی چیتا ہیما لیا، ہندوکش رینج اور دیگر اونچے پہاڑوں میں بھی شکار کرتا ہے  اور اس کا دم چونکہ لمبا ہوتا ہے  جس کی وجہ  سے یہ اپنا توازن برقرار رکھتا ہے  مزید براں  یہ تیس فٹ تک چھلانگ لگا سکتا ہے  اور یہ شاطر جانور بہت کم ہی گرتا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email