آئیں دروش کی سیر کریں

آپ بے شک جنت نظیر وادیوں، طلسماتی حسن اوردلفریب مناظر سے بھرپور مملکت خداداد پاکستان کے کئی بلند وبالا پہاڑوں کی فلک بوس چوٹیوں کو سر کرکے ان کی بلندی اور عظمت سے ہم کلام ہوئے ہوں گے۔ کئی چمکتے صحراﺅں کا نظارہ کیا ہوگا،کئی لہلہاتے کھیتوں میں بوجھل دل اور تھکے، ٹوٹے، ہارے بدن کو سہلایا اور آرام بخشا ہوگا، سمندر کے کنارے بیٹھ کرلہروں سے اٹھکیلیاں اور سنسناتی ہواﺅں سے سرگوشیاں بھی کی ہوں گی، اس کی ریشم جیسی ریت پرچہل قدمی کرکے روح کو ہشاش بشاش بھی کیا ہوگا، کئی سرسبز و شاداب و سحر انگیز جنگلوں میں خیمہ زن ہوکے لیل و نہار کا انضمام بھی دیکھا ہوگا اور روح کی تسکین کیلئے کئی وادیوں میں بھی زندگی کے اہم ایام گزارے ہوں گے لیکن اگر کوہ ہندوکش کے دامن میں واقع برف کی سفید چادریں اوڑھے پہاڑوں،ابرسے گفت و شنید کرتے میدانوں،دریائے چترال سے سیراب ہوتے خوبصورت جنگلات اور فلک بوس پہاڑوں میں گھری  چترال  کےتحصیل دروش نہیں دیکھا، تو یقین جانیں آپ نے قدرت کا اصل حُسن نہیں دیکھا۔

دروش چترال کا ایک اہم تحصیل ہے جسے کھوار میں دروس بھی کہتے ہیں ۔دروش پاکستان کی حسین وادیوں میں سے ایک ہے جس کے جنوب اور مشرق میں اپر دیر  شمال  میں تحصیل چترال اور مغرب میں اس کی سرحدیں افغانستان کے صوبے نورستان اور کنڑ سے ملتی ہیں ۔حسین ہمسائیوں میں گھری اس وادی کا درجہ حرارت موسم گرما میں دن کے اوقات میں زیادہ سے زیادہ 38 سینٹی گریڈ جبکہ رات کے وقت 10 سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ملک بھر سے ہزاروں سیاح ہرسال موسم گرما میں اس وادی کا رخ کرتے ہیں۔

دروش ایک جنت ہے اور جنت جانا آسان نہیں، اس کا راستہ انتہائی کٹھن، دشوار اور تھکا دینے والا ہے لیکن دروش پہنچ کر جو دلی سکون اور تسکین حاصل ہوتی ہے اس سے راستے کی پیچیدگیاں اور تھکاوٹ کا احساس یکایک غائب ہوجاتا ہے اور یہاں پہنچ کر سکون کا ناکام متلاشی دل یہاں پہنچ کر آزاد پنچھی کی طرح بے اختیار اللہ کی تعریف بیان کرتا ہے۔

دروش سے دو کلو میٹر آگے کلاش وادیاں بریر، بمبوریت اور رمبور واقع ہیں جہاں ہر سال ہزاروں ملکی اور غیر ملکی سیاح رخ کرتے ہیں ۔

معدنیات، عالی شان سنگ مر مر ، صنوبر، دیار کے گھنے جنگلات اور نایاب لکڑی کی بنی تاریخی عمارات موجود ہیں اسی وجہ سے یہ چترال کی خوبصورت ترین علاقوں میں سے ہےجہاں دلفریب وادیاں،محسورکن  دریا ،برف پوش پہاڑی سلسلے ،گنگناتی ندیاں،ابشاریں، شفاف پانی کے چشمے،صنوبر ،چلغوزے کے درخت، شاہ بلوط اور دیودار  جنگلات پائے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ کئی ذائقہ دار پھل مثلا سیب، ناشپاتی، اخروٹ، اڑو، انار، انگور، شہتوت، خوبانی، الوچہ اور املوک کے باغات بھی پائے جاتے ہیں ۔شیشی کوہ کی وادی سے نکلنے والی دریا میں مچھلیاں بھی پائی جاتی ہیں۔

دروش کے سنگلاخ پہاڑوں میں نایاب مارخور، برفانی چیتے، لومڑی، گیدڑ، بھیڑیے، بندر بھی پائے جاتے ہیں  اس کے علاوہ مرغ زریں، چکور، تیتر بھی پائے جاتے ہیں۔

دروش میں کئی حسین وادیاں اور گاؤں شامل ہیں جن  میں وادی ارندو،میر کھنی، مڈکلشٹ، اوسیک، جنجریت،عشریت سوئیر ،نگر ،کلکٹک ،کیسو اور شاہ نگار شامل ہیں۔دروش میں تاریخی لحاظ سے دو اہم قلعے ہیں ان میں نگر اور دروش کا قلعہ شامل ہے جو  ہر سال ہزاروں سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں ۔اس کے علاوہ دروش کی چھاونی کی اہمیت اور خوب صورتی کسی سے پوشیدہ نہیں ۔

دروش میں مختلف  قبائل  کے لوگ آباد ہیں جو مختلف زبانیں بولتے ہیں ۔جن میں کھوار (چترالی زبان) بولنے والوں کی اکثریت ہے  اس کے علاوہ پشتو، کوہستانی، ڈنگرک وار،شیخان وار، دمیلی وار، گجری اور تاجک زبان بولنے والے بھی رہتے ہیں ۔دروش میں افغان مہاجرین کی ایک خاصی تعداد کئی عشروں سے قیام پذیر ہے جن میں پشتو بولنے والوں کی اکثریت ہے اس کے علاوہ دری (فارسی )،نورستانی اور ازبک زبان بولنے والے بھی قیام پذیر ہیں ۔دروش کے لوگ  اپنی سادگی اور مہمان نوازی کی وجہ سے علاقے بھر میں مشہور ہیں۔ یہاں کے لوگ بہت محنت کش اور جفاکش ہیں۔ رنگت زیادہ تر گورا اور مضبوط جسامت کے ساتھ ساتھ خوش مزاج لوگ اس علاقے  میں بستے ہیں ۔یہاں کے لوگ غریب ضرور ہیں مگر انتہائی مہمان نواز ہیں اور مسافروں کو اپنا مہمان بنانے کی جستجو میں  آپس میں لڑ رہے ہوتے ہیں ۔

اپنے محل وقوع کی وجہ سے دروش کو نمایان  مقام حاصل ہے۔ کاروباری لوگ اسی وجہ سے اس چھوٹے شہر کا رخ کررہے ہیں جس کی وجہ سے اس کی آبادی میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ۔

 لواری ٹنل کے تعمیر کے بعد دروش کی اہمیت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ پشاور سے چترال کی چودہ گھنٹے کی مسافت اب نصف وقت میں طے کی جاتی ہے لہٰذا سیاح اس موقع سے بھرر فائدہ اٹھا کر لطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔

Print Friendly, PDF & Email