کرپشن کا منہ بولتا ثبوت

جی ہاں کرپشن یا بد دیانتی منہ پھاڑ کر پکارتی ہے کہ ہے کوئی دیکھنے والی آنکھ اور سمجھنے والا عقل جو ادھرتوجہ دے، مگر ہم یہ آواز سن نہیں سکتے ہیں ، کرپشن کو دیکھ نہیں سکتے ہیں اور ہماری عقل اس کو سمجھنے سے عاری ہے۔ یہ کوئی جاد و نہیں ہےیا کسی نے منتر نہیں پڑھا ہے جس کی وجہ سے ہم صمُ بکمُ عمیُ کی عملی تصویر بن گئے ہوں ۔ یہ اگر کمال ہے تو ہمارے قوانین کا ہے ۔ یوں سمجھیے کہ ہمارے قانون سازوں نے قانون کا سہارا لیکر ہماری بینائی، سوچ اور سمجھ پر پردہ ڈال دیا ہے۔ چلو مثا لوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک سرکاری یا غیر سرکاری محکمے میں نچلے درجے کا ملازم سٹیشنری کی دکان سے خریداری کرتا ہے ۔ دکاندار اُن سے رقم کی مقدار معلوم کرنے کے بعد بل تیار کرتا ہے مگر دستیاب رقم کے نصف سے کچھ زیادہ یا کم کے عوض سامان ایک تھیلی میں ڈال کر اہل کار کو تھما دیتا ہے اور چلتے بنتے ہیں ۔ احتساب کرنے والا کتناہی ایماندار کیوں نہ ہو یہ کرپشن نہیں پکڑسکتا۔ کیوں کہ کاغذی کاروائی قاعدے کے مطابق ہے ۔ یہ مثال بھی عام ہے کہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے سرکا ر کوئی عمارت تعمیر کرتا ہے۔ تعمیر میں دو نمبر کی چیزیں استعمال کی جاتی ہیں، سیمنٹ اور ریت کی نسبت میں تبدیلی کی جاتی ہے ۔
المختصرتعمیر کی معیار کے ساتھ سمجھوتہ کیا جاتا ہے۔ ہم نے اکثر یہ بھی مشاہدہ کیاہے کہ دریا کے کنارے جو حفاظتی دیوار بنائے جاتے ہیں اُن میں اُس دیوار کی عمر لمبی ہوتی ہے جو کسی آدمی نے اپنی زمین کی حفاظت کی خاطرخود تعمیر کیا ہوگا ورنہ سرکار کی بنائی ہوئی ریت کی دیوار کی کیا عمر ہوسکتی ہے۔ لیکن ریکارڈ میں تمام کاروائی قاعدے کے مطابق درج کی جاتی ہے۔ مگر تعمیر کچھ مہینوں کے اندر بوسیدہ ہونا شروع ہوجاتا ہےاور دیکھتے ہی دیکھتے کھنڈرمیں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہاں بھی کاغذی کاروائی اور ریکارڈ درست رکھے جاتے ہیں تاکہ بوقت ضرورت لوگوں کی آنکھوں پر پٹی باندھنے کے کام آوے۔ یہی وجہ ہے کہ کرپشن کے بے تاج بادشاہوں کو آپ نے اکثر یہ کہتے ہوئے سنا ہوگا کہ ایک روپے کی کرپشن ثابت ہو جائے تو آپ کا ہاتھ اور میرا گریبان ہوگا۔ اُن کی یہ ڈھٹائی صرف اس لیے ہے کہ قانون میں جس طرح سے کرپشن کی تعریف کی گئی ہے اُس کے مطابق کرپشن کاغذوں میں تلاش کیا جاتا ہے اور یہ لوگ اتنے بھولے بھی نہیں ہیں کہ کاغذوں میں ثبوت چھوڑ جایئں۔ یہ پکڑے بھی جاتے ہیں تو ان کو پریشانی کوئی نہیں ہوتی ہے کیونکہ ریکارڈ قاعدے کے مطابق بنائے ہوتے ہیں اور اگر نہ بھی بنے ہوں تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ایسے ریکارڈ دفتروں کے ساتھ جلائے جاتے ہیں۔ نہ رہے بانس اور نا بجے بانسر ی ۔
یہی وجہ ہے کہ مملکت خداداد میں ہر سال بجٹ میں ترقی کے نام پر خطیر رقم مختص کرنے کے با وجود حقیقی معنوں میں ترقی ابھی تک عنقا ہے۔ کوئی بھی تعلیمی یا صحتی ادارہ یا کوئی بھی قومی عمارت یا سڑک الغرض کوئی بھی کام مملکت خداداد کے اندر معیار کے مطابق نہیں ہے مگر اس کے با وجود اس ملک کے کرتا دھرتا سینہ تان کر کہتے ہیں کہ بد دیانتی ہمارے قریب سے بھی نہیں گزری ہے۔ اب ایک سادہ سا سوال یہ بنتا ہے کہ اگر مملکت کا خزانہ ترقی کے نام پرلوٹا نہیں گیا ہے اور ایمانداری کے ساتھ صحیح جگہے پہ صحیح خرچ ہوا ہے تو مملکت کے ادارے بلکہ پورا ملک کھنڈر کا سا نظارہ کیوں پیش کرتا ہے۔جس ملک کے حکمران بد دیانت ہوں وہ اپنے نیچے کسی بھی ادارے کو بد دیانت بنا دیتے ہیں تا کہ اس حمام میں سب ننگے ہوں۔ بد دیانتی کو ختم کرنے کے لیے موجودہ حکومت کی نیت چاہے کتنا ہی صاف کیوں نہ ہو،اورقومی احتساب بیوروکو سیاسی مداخلت سے چاہے کتنا ہی پاک کیوں نہ کیا جائے، لیکن کرپشن کی موجودہ تعریف کے ہوتے ہوئے نہ بد دیانت لوگوں کو سزا دلوائی جا سکتی ہے اور نہ ہی کرپشن کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔اس لیے ہمارا مشورہ یہ ہےکہ کسی بھی منصوبے کی شفافیت کو جانچنے کے لیےصرف کاغذی کاروائی اور ریکارڈ کی جانچ پڑتال معیار نہیں ہونا چاہئے۔ کوئی سڑک وقت سے پہلے اُکھڑنا شروع ہوجائے، کوئی پل وقت سے پہلے گر جائے، کوئی عمارت وقت سے پہلے بوسیدہ ہونا شروع ہوجائے۔
غرض کوئی بھی منصوبہ زبان حال سے کرپشن کی داستاں سنائےتو اسی کو مکمل ثبوت تسلیم کرتے ہوئے سارے کرتا دھرتاؤں کو بلا تاخیر سزادینی چاہئے۔ نئی حکومت کرپشن کی تعریف بدلتے ہوئے ریکارڈ اور کاغذات کے ساتھ کرپشن کی زبان حال کو ناقابل تردید ثبوت قراردےسکے تو یقیناَایک نئے اور مظبوط پاکستان کی بنیاد پڑسکتی ہے۔

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email