زبان مذہب اور سائنس

زبان مذہب اور سائنس کا امتزاج یہ تینوں چیزیں زبان مذہب اور سائنس کیا ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں یا جدا جدا اور کیا آج کے دور میں  مذہب کی تشریح کےلیے سائنس کی بھی ضرورت پڑتی ہے؟ اور  سائنس کی نظر میں مذہب کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ ۔
دنیا میں بہت ساری زبانیں بولی جاتی ہیں مگر جو مقام دو زبانوں کو یعنی عربی اور انگریزی کو حاصل ہے وہ شاید ہی کسی اور زبان کو حاصل ہو ۔ زبان کی مختصرا تعریف ہم اپنی تمام ضروریات ، احساسات ، جذبات ، خیالات ، مشاہدات، افکارات و عمل کا اظہار دوسرے ذرائع کے مقابلے میں زبان کے ذریعے سے بڑی عمدگی اور معنویت اور شائستگی سے کرتے ہیں ۔ اگر مذہب کی بات کی جاۓ تو دنیا میں بے تحاشہ مذاہب ہیں ، لیکن ہم یہاں پر بات صرف دین اسلام کی کر رہے ہیں ۔ کسی بھی مذہب کو سمجھنے کے لیے سب سے قبل اس سے متعلق زبان پر عبور حاصل کرنا بے حد ضروری ہے ۔ مثلا اسلام کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے لیے عربی زبان پر دسترس حاصل ہونا چاہیے کیوں کہ اسلام سے متعلق کتابیں ( قرآن و حدیث ) عربی زبان میں ہیں  ۔ اسی طرح سائنس و ٹیکنالوجی کی زبان بیشتر انگریزی ہیں ۔ آپ کو زیادہ تر کتابیں انگریزی میں ملیں گے ، کیونکہ انگریزی ایک  بین الاقوامی زبان ہے ۔ ہم اس وقت تک سائنس کے شعبے میں آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں اور نا ہی سائنس علوم میں جب تک ہماری بنیادی تعلیم یعنی نظام تعلیم مادری زبان میں نہ ہو، مگر انگریزی زبان میں اس شرط کے ساتھ کے طالب علموں کو انگریزی زبان سیکھنے سمجھنے کےلیے ایک ایسا ماحول بھی مہیا ہو جہاں واقعی میں ایسا محسوس ہوں ۔ جیسا کہ آپ کے اردگرد کا ماحول موضوع کے عین مناسب اور متعلقہ سائنسی آلات بھی دستیاب ہوں جسے آج کل اسمارٹ کلاس روم کا نام دیا جاتا ہے ۔ اب دونوں شعبوں یعنی مذہب اور سائنس کی اگر بات کی جاۓ تو صحیح العقیدہ مسلمان بننے کے لیے ، سائنس و ٹیکالوجی اور جدید علوم سے استفادہ حاصل کرنے کے لیے عربی اور انگریزی زبان پر مہارت لازمی شرطیں ہیں ۔ کیونکہ زبان بھی ایک سائنس ہے آج کے دور میں ماہر لسانیات نے زبانوں پر کافی کام کیا ہے ماہر لسانیات نے تحقیق سے یہ بات ثابت کیا ہے کہ زبان بھی ایک سائنس ہی ہے ۔
قدیم اور جدید مسلم اور غیر مسلم اسکالرز نے مذہب اور سائنس کی تعریف کی ہیں ۔ جن میں سے مشہور اسکالر ابن خلدون مذہب اور سائنس کی تعریف میں لکھتے ہیں ۔ علوم کی دو اقسام ہیں ۔ ایک علوم نقلی جن کا منبع نور وحی ہے جیسے قرآن و حدیث اور دوسرے علوم عقلی یا طبعی جن سے انسان اپنی عقل و فکر سے آگاہ ہوتا ہے ۔جن کا منبع حواس انسانی ہے ۔
اسی ذیل میں پروفیسر سعید کہتے ہیں ۔ علوم عقلی اور طبعی انسان اپنے مشاہدات و تجربات اور اپنے حواس کے ذریعے ان علوم سے آگاہ ہو جاتا ہے غلط اور صحیح میں تمیز کرلیتا ہے ۔ ان اصطلاحات علوم کو سائنس کہا جاتا ہے ۔
 مذہب کی تعریف سے قبل اہک ضروری بات جو کہ اہم ہے وہ یہ کہ اسلام کو عمومی طور پر مذہب نہیں بلکہ دین کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔ کیونکہ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ جیسا کہ سبھی جانتے ہیں اسلام عربی زبان کے ٹیکسچر میں ہم تک پہنچا ہے ۔ عربی میں اس کا مفہوم غلبہ و اقتدار ، اطاعت و فرمان برداری کے ہیں ۔ اور اصطلاحی معنی یہ ہیں کہ بندہ اپنے وجود کو مکمل طور پر اللہ کے حوالے کردے ، تمام تصرف اللہ کے حکم کے تابع ہو ۔
زبان مذہب اور سائنس کی تعریف مسلم اور غیر مسلم اسکالرز کی نظر سے واقف ہونے کے بعد یقینا ہم ان تینوں کا امتزاج اور منطقی ربط کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ انسانی افعال و کردار اور نور وحی سے لیکر حواس خمسہ میں قدرے مشترک چیزیں تلاش کرنا ایک ذی شعور انسان کا اپنا کام ہے ۔ اس صورت حال میں الگ قوم و شناخت ہونے کی بنا پر عربی زبان اور انگریزی زبان سے کیسے واقفیت حاصل کی جاۓ تاکہ اس نصاب سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاۓ ۔
میں نا تو ماہر تعلیم ہوں اور نا ہی ماہر لسانیات مگر میرے خیال میں اس کی دو ہی صورتیں ہیں یا تو نصاب تعلیم کو مادری زبان میں منتقل کیا جاۓ مثلا ہمارے اسکولوں میں بنیاد سے ہی سائنس کے مضامین کا مادری زبان میں سلیس ترجمہ کے ساتھ کتابیں شائع ہوں اور قرآن و حدیث کا بھی ٹھیک اسی طرح انتظام ہو یا دوسرا طریقہ یہ کہ ماہرین لسانیات  کسی بھی زبان کو سیکھنے اور سمجھنے کے لیے ایک ایسا ماحول تجویز کرتے ہیں ۔ جہاں ایسا لگے کہ واقعی میں آپ اس معاشرے کا حصہ ہیں اس طریقہ کار کے لیے اساتذہ کا انتخاب زبان کو مد نظر رکھتے ہوۓ کرنا ضروری ہوتا ہے مثلا انگریزی زبان کے لیے استاد باہر سے ہو جو کہ اکسفورڈ کی اسٹنڈرڈ انگلش بولتا ہوں اور اس کا تلفظ اور لہجہ معیار پر پورا اترے ۔ اور اسی طرح عربی کا استاد عرب ممالک سے تعلق رکھتا ہوں اس کا تلفظ اور لہجہ بھی صحیح ہوں اور اسٹنڈرڈ عربی بول سکتا ہوں ۔
مگر ہمارے ہاں معاملہ ہی الٹ ہے ہمارے اسکول کالجز اور یونیورسٹیز میں یکساں نصاب تعلیم نہیں ہے ۔ سرکاری اسکولوں اور کالجز میں انگرزی زبان کا دور دور تک سوراخ نہیں ملتا ہے اور پرائیویٹ اسکول کالجز میں انگریزی پر خوب خوب زور دیا جاتا ہے ۔ اور دونوں کے نصاب تعلیم میں زمین آسمان کا فرق ہے جس کی وجہ سے مختلف مکاتب فکر ان اداروں سے جنم لیتے ہیں ایک طبقے فرفر انگرزی بول لیتا ہے اور دوسرا طبقہ بس اردو بولنے پڑھنے پر ہی اکتفا کرتا ہے ۔ اس ضمن میں سب سے بھیانک بات میرے نزديک ہمارے  کالجوں اور مدرسوں میں دینی علوم اور عصری علوم کو الگ الگ رکھنا ہے مستقبل قریب میں اس کے نہایت سنگین نتائج سامنے آئینگے ۔ دونوں اداروں کالج اور مدرسوں میں دینی و عصری دونوں علوم کو ارسر نو ترتیب دیکر لازم قرار دیا جانا چاہئے اور وفاقی اور صوبائی حکومت کو چاہیے کہ ملک میں یکساں نظام تعلیم کے لیے فوری اقدامات کریں ۔ ہر پاکستانی طالب علم کو ایک اچھا مسلمان ایک اچھا شہری بنانے کےلیے اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں باقی اقوام کی صف میں کھڑا کرنے کے لیے حکومتی سطح پر فوری اقدامات اٹھائے جائیں ۔ کیونکہ زبان مذہب اور سائنس بشمول مادری زبان میں تعلیم دئیے بغیرکسی بھی ملک و قوم کی ترقی ممکن نہیں ۔
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے