سب سے پہلے امریکہ!

ایک نظر امریکی سیاست اور امریکہ کی مستقبل پر دوڑاتے ہیں ۔ نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی حلف برداری کی تقریب میں اپنے تاریخی خطاب میں ایک نعرہ بلند کیا ۔ ” سب سے پہلے امریکہ “ ۔یہ نعرہ کچھ جانا پہچانا سا لگتا ہے ۔ جی ہاں سابق صدر (ر) جنرل پرویز مشرف نے بھی ٹھیک اسی طرح کا ایک نعرہ لگایا تھا  ” سب سے پہلے پاکستان “  البتہ میرے خیال میں مشرف صاحب بعد میں اس پر قائم نہ رہ سکے اور ملکی مفاد کے خلاف بہت سارے غلط فیصلے بھی کیے ۔ امریکی تاریخ میں ڈونلڈ ٹرمپ 45 واں صدر بن گئے ہیں۔  صدارتی حلف برداری کی تقریب میں دنیا بھر سے مہمانوں کو مدعو کیا گیا تھا ۔  ٹرمپ کے انتخابی حریف ہیلری بھی اپنے شوہر سابق امریکن صدر بل کلنٹن کے ہمراہ حلف برداری کی تقریب میں موجود نظر آئی ۔  باوجود شدید سیاسی اختلافات کے ہیلری کی اس تقریب میں شرکت امریکی معاشرے میں  سیاسی بالغ النظری کی ایک مثال ہے ۔  حلف برداری کی تقریب میں ہیلری کی شرکت پر ٹرمپ نے بھی اعلی ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے  اچھے الفاظ سے ہیلری کو مخاطب کرتے ہوۓ انہیں ویلکم کیا ۔ اس موقعے پر حاضرین بھی پیچھے نہیں رہے اور سب نے کھڑے ہوکر ٹرمپ کے ساتھ ملکر ہیلری اور کلنٹن کے لیے تالیاں بجائیں ۔ اس سلسلے میں اگر دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں کیا ایسا ممکن ہے ؟  ایک پارٹی انتخابات  جیت جاتی ہے تو کیا باجود سیاسی اختلافات کے دوسری پارٹی ملکی مفاد کی خاطر کھلے دل سے انتخابات کے نتائج قبول کرتی نظر آتی ہے ۔  دھندلی اور انتخابات میں فراڈ دونوں ہی اس وقت الگ موضوع ہیں ان پر بات کسی اور وقت صحیح لیکن ہمیں اس مثبت طرز عمل سے ضرور سبق حاصل کرنا چاہیے ۔

صدارتی حلف برداری کی اس تقریب میں جو سب سے اہم اور قابل ذکر بات تھی ، وہ ٹرمپ کی ( Speech ) تقریر جو کہ تقریباً 20 منٹ پر مشتمل تھی۔ ٹرمپ کی تقریر کے چند چیدہ چیدہ نقطات جن کا یہاں ذکر ضروری ہے ۔

ٹرمپ نے صدارتی حلف برداری کی تقریب سے مخاطب ہوتے ہوۓ کہا کہ  "یہ ضروری نہیں کہ کونسی پارٹی حکومت کنٹرول کرے بلکہ یہ ضروری ہے کہ عوام حکومت کنٹرول کررہے ہیں یا نہیں ؟”جس پر حاضرین کی جانب سے زور دار تالیاں بجائی گئیں ۔ اس انوکھی بات نے حاضرین کے دل جیت لیں پھر اس کے ساتھ ہی ایک اور جملہ ٹرمپ نے اپنے منفرد انداز میں سب کے سامنے رکھ دیا۔ "آج سے صرف ایک بات چلے گی ۔ ۔ ۔ سب سے پہلے امریکہ ۔ ۔ ۔ہم دو قانون فالو کریں گے ۔ امریکہ کی بنی چیزیں خریدیں گے ۔ اور امریکی ٹیلنٹ کو آگے لائیں گے ۔”

سبھی جانتے ہیں ان جملوں سے ٹرمپ کا اشارہ کس کی جانب تھا ۔ دنیا کی سب سے بڑی امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ کی مارکیٹ امریکہ کی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس پر چین کی گرفت مضبوط ہوتی جارہی ہے ۔ آج دنیا میڈ ان چائینا کی گرفت میں ہے ۔ بہرحال امریکی عوام ان کا اشارہ سمجھ گئیں ۔  جملوں کے تبادلے میں ٹرمپ نے خوب داد سمیٹی مزید ٹرمپ نےکہا۔ "ساری دنیا کے ساتھ دوستی کریں گے لیکن اس سوچ کے ساتھ کے تمام ممالک کو حق ہے کہ وہ اپنے مفادات کو مقدم رکھیں ۔ ہم اپنا نظام کسی پر مسلط نہیں کریں گے۔ ٹرمپ ایک محب وطن شخص ہے میرا نہیں خیال کے ٹرمپ بش اور اوبامہ کی طرح امریکہ کو مزید کسی جنگ میں دکھیلے گا ۔ ہمارا نظام دنیا کے لیے مثال ہے ۔ ہم نئی دوستیاں بنائیں گے ۔ اور پرانی دوستیوں کو مضبوط کریں گے ۔ ایک سوال لازمی ہے کیا امریکہ جو کہ سعودی عرب کا پرانا اتحادی اور حلیف ملک رہ چکا ہے کیا پھر سے اس اتحاد کو فروغ دے گا؟

ٹرمپ نے آگے کہا ؟ "مہذب دنیا کو مسلم انتہا پسند دہشتگردی کے خلاف متحد کریں گے اور اس کو صفحئ ہستی سے مٹا دینگے ۔”  ( امریکی نو منتخب صدر کی اس بات سے زاتی طور پر مجھے اختلاف ہے کیونکہ انتہا پسند ہر مذہب اور معاشرے میں پائیں جاتیں ہیں انتہا پسندی کو صرف اسلام سے جوڑنا سراسر نا انصافی ہے )

تمام امریکی یاد رکھیں ۔ چاہے وہ کسی بھی رنگ و نسل و مذہب  سے ہوں وطن پرستوں کے خون میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔ واشنگٹن میں خوشی آئی مگر عوام خوشحال نہیں ہوۓ ۔ سیاست دانوں نے پیسے بنائے لیکن ملک کی فیکٹریاں بند ہو گئیں ۔ پاکستان کو اس موقع سے فائده اٹھانا چاہیے ٹرمپ وطن پرست ہیں وہ امریکہ کی مفاد کو دیکھتے ہیں بش اور ابامہ دور سے قدرے مختلف منظر اور بدلتا ہوا امریکہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے پاکستان موقع سے بھرپور فائده اٹھائے ۔

ٹرمپ نے اپنے خطاب کے آخری میں کہا۔ "اسٹبلیشمنٹ نے اپنا تحفظ کیا مگر عوام کا نہیں ۔ ان کی خوشیاں و کامیابیاں آپ کی کامیابی نہیں بن سکیں ۔ جب یہاں خوشیاں منائی گئیں تو ہمارے شہروں گلیوں میں خوشیاں منانے کے لیے کچھ  بھی نہیں تھا ۔ یہ سب کچھ آج سے بدلنے جارہا ہے ۔ اسی وقت ۔ ۔ ۔اسی جگہ ۔ ۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے