اسلامی عسکری اتحاد کے اغراض و مقاصد

آج کل سوشل میڈیا ،  ٹی وی ،  اخبارات ہر طرف ایک ہی چیز پر بحث و مباحثہ چل رہا ہے ۔ وہ ہے اسلامی عسکری اتحاد ،  جو کہ مڈل ایسٹ میں بننے جارہا ہے ۔  کوئی اس اتحاد کو آل سعود کی حفاظت کا نام دے رہا ہے ، تو کوئی اس اتحاد کو امریکہ و اسرائیل کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کررہا ہے ۔  میں چاہتا ہوں کہ اس پر بات شروع کرنے سے پہلے آپ کو آج سے دس ماہ پہلے ( رعد الشمال ) نارتھ ٹھنڈر کے نام سے ایک تاریخی مشترکہ فوجی مشقیں ،  جو کہ سعودی عرب کے شمالی علاقوں میں ہوئے  تھے ، کا مختصرا احوال بتاؤں ۔ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے نارتھ ٹھنڈر  یعنی شمال کی گرج ان فوجی مشقوں میں کل 20 چھوٹے بڑے  اسلامی ممالک نے شرکت کی جن میں قابل ذکر نام پاکستان ، مراکش ،  ترکی ، متحده عرب امارات ، قطر اور سعودی عرب  شامل تھے ۔ ان فوجی مشقوں کا مقصد یہ تھا ،  کہ اسلامی ممالک کے افواج ایک دوسرے کو جان سکے ایک ماحول بن سکے ۔ جو کہ اصل میں اسلامی عسکری اتحاد کےلیے راہ ہموار کرنے کےلیے تھا۔

اسلامی عسکری اتحاد جس میں 41 اسلامی ممالک شامل ہیں ۔ اس اتحاد میں دنیا کی بڑی بڑی آرمی شامل ہیں ۔ جن کی صلاحیتیں شاندار ہیں ۔ سعودی عرب کی ائیر فورس اور دنیا کی نیوی ایڈوانس ترین اسی طرح مصر ، متحده عرب امارات اور مراکشی ائیر فورس اور نیوی ۔

یقینا یہاں چند سوالات ضرور جنم لیتے ہیں ۔ جن میں سے ایک یہ کہ آخر پاکستان سے ہی کمانڈر کیوں چنا گیا ؟

خطے کے اندر مغربی نیبر ہوڈ یعنی مڈل ایسٹ کی بڑی اہمیت ہے خصوصا پاکستان  کے ساتھ پرانے اور گہرے مراسم ہیں ۔  اور پاک فوج کا مشرق وسطی میں کافی پرانا تجربہ ہے ۔  بمشکل ہی کوئی فورس ہوگی جسے پاکستانی فوج نے ٹرینگ نہ دی ہو ۔ جیسا کہ اردن ،  مصر ،  عراق ،  شام ، سودان اور سعودی عرب وغیرہ ۔ کیا آپ کو اس چیز کا اندازہ ہے کہ خطے میں کتنا زبردست کام ہونے جارہا ہے ۔ اسلامی اتحاد کا خواب پرانا ہے جس کی تعبیر اب جا کے ہوئی۔  اس اتحاد کا مرکزی دفتر یعنی ہیڈ کوارٹر ریاض شہر سعودی عرب کے دارالحکومت میں واقع ہے ۔

اسلامی کولیشن کی کیا ضرورت تھی ؟ 

1969ء میں او آئی سی کا قیام جس میں تمام مسلمان ممالک عرب اور غیر عرب ممالک دونوں کو سیاسی اور عالمی سطح پر متحد رکھنے کےلیے او آئی سی کا قیام عمل میں لایا گیا ۔

1974ء میں جب وزیراعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی سمٹ بلایا تو اس وقت تمام اسلامی ممالک کے سربراہان کو لاہور مدعو کیا گیا ۔اسلامی سربراہی کانفرنس کے اعراض ومقاصد میں اول چیز تمام اسلامی ممالک کو سیاسی سطح پر منظم کرنا تھا جب وہ منظم ہو جاتے تو انہیں اسلامی عسکری اتحاد کی شکل دینا تھا جوکہ کامیاب نہ سکا تھا۔ آج اسلامی عسکری اتحاد اسی خواب کی تعبیر ہے ۔

کیا یہ کولیشن بن سکتا ہے اور اس کے کامیابی کے کتنے چانسس ہیں ؟

یہ سوال نہایت اہم ہے کیونکہ جس طرح پچھلے دو کوششیں ناکام ثابت ہوئیں ۔ جن کا حشر ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ۔ میں او آئی سی اور اسلامی سمٹ ہی کی بات کر رہا ہوں ۔ بلخصوص او آئی سی کی ۔ جو کہ مسلمانوں کی بے نام اور غیر فعال تنظیم ہے ۔

ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مختلف اسلامی ممالک کے  ماہرین  ریاض میں اسلامی عسکری اتحاد کے لائحہ عمل کی تیاری میں مصروف ہیں ۔ جو کہ شور کم اور اس اتحاد کی کامیابی کےلیے ریسرچ اور کام زیادہ کر رہے ہیں ۔ اپنی ہر ممکن کوشش جاری رکھے ہوئے  ہیں ۔

کیا یہ سکٹیرین اتحاد ہے ؟ 

بالکل بھی نہیں وہ اس لیے کہ اس اسلامی عسکری اتحاد کا مقصد تمام مسلمانوں کو متحد اور منظم کرنا ہے اور باہمی منافرت کی روک تھام ہے ۔ آج کل اسلام کو دہشتگردی اور انتہا پسندی کا سامنا ہے اور مغربی ممالک کی مسلمان ممالک میں دخل اندازی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔ ایسے میں دہشتگردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کےلیے اسلامی اتحاد وقت کی عین ضرورت تھی ۔ وہ کون کون سے عناصر ہیں جو خطے میں دہشتگردی کو فروغ دے رہے ہیں اور وہ کون سے عناصر ہیں جو کہ دہشتگردوں کے سہولت کار بن رہے ہیں۔

کیا ایران  اور شام کو اس اتحاد میں شمولیت کی دعوت دی گئی تھی ؟ 

اسلامی کولیشن کے اعلان کے ساتھ ہی تمام اسلامی ممالک کو بشمول ایران اس اتحاد میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی ۔ مگر ایران کو چند شرائط کی بنیاد پر وہ یہ کہ ایران اور بعضی  عرب ممالک کے بیچ جو باہمی مسائل ہیں ۔ پہلے دونوں جانب سے انہیں حل کرنا ہوگا ۔ ایران کسی بھی خود مختار ملک میں مداخلت کا مجاز نہیں ایران کو باز رہنا ہوگا ۔ ( بعضی عرب ممالک ایران پر یہ الزام عائد کرتے ییں کہ ملکی خانہ جنگی میں ایران ملوث ہے ، ایران کے ہاتھ ہیں ) ان ممالک میں سر فہرست سعودی عرب  قطر ، یمن ، عمان وغیرہ شامل ہیں ۔ ان عرب ممالک کے علاوہ غیر عرب ممالک جیسا کہ نائجیریا ، مصر ، آزربائیجان بھی ایران پر الزام عائد کرتے آئے ہیں ۔ شام کو اس اتحاد میں دعوت نہیں دی گئی ۔ اس کی وجہ ملک میں جاری افراتفری ہے ۔ جس کی وجہ سے عرب لیگ نے شام کو عرب تنظیم سے ہی نکال دیا ہے ۔ جب تک یہ فیصلہ نہیں ہوجاتا کہ شامی عوام کس کو اپنا حکمران تسلیم کرتے ہیں اس وقت تک شام کو اس اتحاد سے دور رہنا پڑ سکتا ہے ۔

آخر میں سب سے اہم اور ضروری سوال وہ یہ کہ پاکستان کا اس اتحاد میں کیا کردار ہوگا ؟ 

پاکستان چونکہ اسلامی نظریاتی ملک ہے ۔ جو کہ کلمئہ طیبہ کے نام پر بنا ہے ۔ پاکستان اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی طاقت ہے اور پاکستان کو اسلام کا قلعہ بھی کہا جاتا ہے ۔ افواج پاکستان کو اسلام کے سپاہی اور مجاہدین اسلام کا لقب بھی دیا جاتا ہے ۔ اس لحاظ سے اسلامی دنیا کا پاکستان پر توقعات بھی زیادہ ہیں ۔ ماضی میں بھی پاکستان کی خدمات قابل ستائش رہی ہیں ۔ ہمیں چاہئے کہ اس اتحاد کو حسد کی نگاہ سے دیکھنے والوں کا ساتھ نہ دیں ان کے کسی بھی پروپگینڈے کا حصہ نہ بنیں اور عقل و شعور سے کام لیں ۔ اسلام اور پاکستان کے مفاد کو پیش نظر رکھیں اور اسلامی اتحاد کو فروغ دیں ۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے