اور آپ کا عقیدہ ؟

اکثر میں نے دیکھا ہے کہ لوگ من گھڑت قصے کہانیوں سے متاثر ہوتے ہیں ۔ بعض افراد اپنے خرافات و واہیات چھپانے کےلیے اولیاء کرام کی حکایات و واقعات کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں ایسی روایات زبان زد عام ہیں۔ جہاں سے غلط اور  منفی تصورات نے جنم لیا ہے ، ہمارے معاشرے میں ایسی حکایات کی بھرمار ہے۔ بالخصوص پاکستان میں درگاہوں اور مزارات میں اسلام کے نام  پر شرک ، کفر اور بدعات کا بازار گرم ہے۔  قرآن اور احادیث میں سختی کے ساتھ شرک و بدعت کی نفی کی گئی ہے  اور توحید پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ اسی طرح مغربی ممالک میں اس کے برعکس دماغ اور فلسفے پر خوب زور دیا جاتا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ انسانی دماغ  بھی عجیب و غریب شے ہے۔ آج  دنیا کو جو ترقی حاصل ہے اس کے پیچھے انسانی دماغ کا ہی ہاتھ ہے ۔ یہ وہ مشین ہے جو پہاڑ اور لوہے جیسی سخت چیزوں کو بآسانی ریزہ ریزہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ انسان نے اللہ تعالی کے عطا کیے ہوئے علم و حکمت کی بنیاد پر اسی دماغ سے کام لیتے ہوئے چاند پر قدم جمائے۔ زمانۂ قدیم کےآغاز سے ہی انسانی دماغ سے کسی نہ کسی حد تک کام لیا گیا۔ جس کی بدولت اس دور کی مناسبت سے حتی المقدور مختلف شعبہ ہائے زندگی پر تحقیق و مشاہدات کی نئی نئی راہیں کھلتی چلی گئیں۔  نت نئی  دریافتیں اور ایجادات ہوتے رہے، سما بدلتا گیا چونکہ شروع میں اس کا دائرئے کار محدود تھا  مگر جوں جوں اس کی رفتار میں تیزی آئی تو ایک طرف انسان نے آسمان کی بلندیوں کو چھوا تو دوسری جانب سمندر کی گہرائیوں کا قدرے قریب سے مشاہدہ کیا جو کہ اس سے پہلے ناممکن تھا ۔ سائنس و ٹیکنالوجی نے دنیا کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی مقناطیسی اور جادوئی طاقت نے ہر ایک طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنی گرفت میں جکڑ لیا ۔ ایک خاص طبقے نے تو سائنس کو ہی اپنا الہ بنالیا اور اس کی پرستش کرنی بھی شروع کردی، نوبت یہاں تک  آن پہنچا کہ موجودہ انسانی ہیئت کو بندروں کی ارتقائی شکل کا نام دیا گیا۔ اکیسوی صدی یہ وہ دور ہے جس نے بہت سارے سوالات کو جنم دیا، نئے نئے مکتبۂ فکر نے اسی دور میں سر اٹھایا ۔ پچھلے کئی دھائیوں سے جاری مختلف تہذیبوں کی اخلاقی عروج و زوال کی داستانیں تو ہم نے سن رکھے ہیں جہاں عقل و فلسفے کی خوب خاطر داری اور واہ واہ ہوتی تھی  مگر نور وحی کے نزول کے ساتھ ہی دماغ و فلسفہ کی پرستش نے بھی دم توڑ دیا ۔ اس وقت کے خود ساختہ فلاسفرز نے دنیا اور انسان کی تخلیق پر زورآزمائی کی  جوکہ لا حاصل ثابت ہوا۔

انسانی دماغ کی بدولت جہاں بے شمار فوائد ہمیں حاصل ہوئے وہاں بہت سارے نقصانات بھی ہمیں جھیلنے پڑے۔  بنی نوع انسان کی سوچ و فکر نے جب  مبالغہ آرائی سے کام لیا  تو عجیب و غریب قصے کہانیاں انسانی دماغ نے فلسفے کے نام پر گھڑنا شروع کیا۔ جس کی بنا پر مختلف نظریات سوچ و فکر نے جنم لیا، مختلف گروہ وجود میں آئیں ۔ کچھ نے عقیدے میں موجود حدود و قیود کو پامال کیا  تو بعض نے حدود و قیود سے بھی آگے نکل کر اپنی سوچ و فکر کی پرچار کی، بہرحال یہ سب کچھ اپنی جگہ  ، ہم انسانی عقل و دانش سے انکار بھی نہیں کرتے بلکہ اس کو راہ راست پر لانے کےلیے نور وحی کی اہمیت و ضرورت کا جائزہ لیتے ہیں۔  انسانی دماغ اور قرآن پاک دونوں کی سوچ و فکر میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔  نور وحی اور عقل و فلسفہ کبھی بھی ہم پلہ نہیں ہو سکتے، جہاں انسان کی سوچ ختم ہوجاتی ہے ۔ وہاں پہ نور وحی کی شروعات ہوتی ہے ۔ جہاں انسانی دماغ جواب دے جاتی ہے وہاں نور وحی کام آتی ہے ۔ نور وحی نے ہمیں وحدت کا درس دیتا ہے ۔ جبکہ انسانی دماغ ہر لمحے ایک اضطرابی کیفیت سے دوچار اور طرح طرح کے وسوسوں اور مخمصوں کا شکار رہتی ہے  ۔ میں نے  اپنی محدود علم اور سوچ کے ساتھ عقل اور نور وحی پر تجزیہ کرنے کی کوشش کی اور میں ان تمام تجزیوں کو رد کرتا ہوں جن میں میں اللہ کی ذات اور آخرت کی نفی کی گئی ہے اور مختصر الفاظ میں صحیح اسلامی عقیدہ آپ کے سامنے رکھنے کی کوشش کروں گا ۔

ہمارا عقیدہ

ایک طالب علم اور ایک عام مسلمان کو اللہ کی ذات ،اس کے فرشتوں ، کتابوں ، رسولوں ، آخرت کے دن اور تقدیر کے خیر و شر پر ایمان کے سلسلے میں مسائل درپیش ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ صحیح عقائد درست اعمال ، اخلاق اور بلند پایہ آداب وغیرہ ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو روشن اور صاف راستے پر چھوڑ کرگئے ہیں ۔ جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے ۔ صرف ہلاکت اختیار کرنے والا شخص ہی اس راستے سے بھٹک سکتا ہے ۔ میں یہاں مختصراً صرف مسلمانوں کے  عقیدے کی بات کرنا چاہتا ہوں ۔

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کی ربوبیت پر ،صرف وہی پالتا ہے ۔پیدا کرنے والا ہے ۔ بادشاہ ہے اور تمام امور کی تدبیر کرنے والا ہے ۔

ہمارا ایمان ہے کہ

ہم اللہ کی الوہیت پر ایمان لاتے ہیں ۔ یعنی وہی صرف معبود بر حق ہے  اور اللہ تعالی کے ناموں اور صفات پر بھی ہمارا اہمان ہے  اور اوصاف میں اس کی وحدانیت پر بھی ہمارا ایمان ہے ۔ یعنی اس کی ربوبیت ، الوہیت اور اس کی صفات میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ۔

اور ہم اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۔

وہ جو چاہے کردیتا ہے اس کے ارادے کے دو قسمیں ہیں

  1. ارادہ کونیہ
  2. ارادہ شرعیہ

اس جیسی کوئی شے نہیں اور وہ خوب دیکھنے والا سننے والا ہے ۔ یہاں ایک ضروری بات بھی قابل غور ہے وہ یہ کہ ہم جہیمیہ میں سے حلولیہ فرقہ کی طرح یہ نہیں کہتے کہ وہ ( اللہ ) اپنی مخلوق کے ہمراہ زمین میں ہے جو شخص ایسا کہتا ہے وہ یا تو گمراہ ہے یا منکر کیونکہ اس نے اللہ کا ناقص وصف بیان کیا  جو کہ اس کے شایان شان نہیں ۔

جن چیزوں میں اللہ اور اس کے رسولؐ نے سکوت اور خاموشی اختیار کیاہے ہمیں بھی چاہئے کہ ان چیزوں کو نا ہی کریدیں تو بہتر ہے ۔ ہمارے نزديک کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نصوص کو ان کے ظاہری معانی اور اللہ عزوجل کی شان کے لائق حقائق پر محمول کرنا واجب ہے اور ہم برأت کا اظہار کرتے ہیں۔ اہل تحریف ، اہل تعطیل اور اہل غلو کے طریقہ کار سے ۔

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ پاک کا چہرہ ہے اس کی دو آنکھیں ہیں ۔ اس کے ہاتھ ہیں مگر ہمیں ان کی کیفیت کا علم نہیں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کا چہرا اور ہاتھ انسانی اعضاء جیسی ہیں ۔

ہم اس چیز کے بھی قائل ہیں کہ قرآن پاک میں کوئی بھی تحریف رد و بدل نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ پاک نے خود اٹھایا ہے

ایک اور چیز چونکہ ہم آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں لہٰذا احادیث پاک کی صداقت پر ہمارا ایمان ویسا ہی ہے جیسا کہ قرآن پاک پر ۔

میں نے اس موضوع کی اہمیت اور عقیدے کے بارے میں لوگوں کو منتشر اور متفرق خواہشات کے پیش نظر بہتر سمجھا کہ اس موضوع پر بات کی جائے ۔ اس کوشش میں میں کس حد تک کامیاب رہا یہ بات قارئین ہی بہتر بتا سکتے ہیں ۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے