ماحولیاتی آلودگی اور خدشات

ماحولیاتی آلودگی کا مطلب ماحول میں کسی ایسے مادے یا توانائی کا دخول ہے جس سے تبدیلی آجائے یا آنے والی ہو، جو بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر اثر انداز ہوتی ہو۔ماحولیاتی آلودگی کی نمایاں شکلیں فضائی آلودگی ، آبی آلودگی اور زمینی آلودگی ہیں۔ آلودگی کی یہ اقسام ہماری زمین کے حسین ماحول کو جہنم بنانے کا پورا تہیہ کر رکھا ہے۔ آلودگی کے اسباب اور ماحول میں داخل ہو کر اسے آلودہ اورکثیف بنانے پر اگر غور کیا جائے تو یہ واضح ہو جاتی ہے کہ آلودگی کا سب سے نمایا ن اور خطرناک سبب آبادی کا بے پناہ اضافہ اور صنعتی ممالک کا اپنی صنعتوں کو فروغ دینے کے لیے معدنیات اور قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال ہے۔ جس سے قدرت کی جانب سے قائم کیا جانے والا نظام توازن (Ecological Equilibrium )شدید طور پر متاثر ہوا ہے جس کے نتیجے میں مختلف نوعیتوں کی فضائی آبی اور ارضی آلودگی پیدا ہوئی ہے۔ کرۂ فضائی میں پایا جانے والا گیسوں کا توازن بگڑ رہا ہے۔ بلکہ بڑی حد تک بگڑ چکا ہے۔ شجر نہ ہوتاتو بشر نہ ہوتا۔ اس بات کے مصداق ہم آکسیجن لے کر کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں۔ یہی کاربن ڈائی آکسائیڈ پودے اور درخت استعمال کرتے ہیں اور نتیجے میں آکسیجن بناتے ہیں۔ اسی طرح پودے اور جانور فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آکسیجن کا توازن رکھتے ہیں۔آج کے دور میں سائنسی اورصنعتی ترقی کے مظہر کارخانوں کے چمینوں سے نکلنے والا کثیف اور آلودہ دھویں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھادی ہے۔ جس سے Global Warming جیسا ماحولیاتی خدشہ درپیش ہے۔(کچھ اندازہ تو گزشتہ سال تباہ کن سیلاب سے ہوا ) اس کے علاوہ Green House Effect کی وجہ سے موسموں پر عجیب اور برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ برسوں سے جمی ہوئی برف کے قطبین پر پگھلنے کے خد شات سے کرۂ ارض پر انسانی وجود کو اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہے۔ کیونکہ اگر یہ برف پگھل گئی ، تو دنیا میں طوفانِ نوح جیسی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی موجوں کی بلندی گھروں کو ڈبونے کے لیے کافی ہوگی۔ کرۂ ارض میں مختلف کمیائی مادوں اور زہریلی گیسوں کی موجودگی کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ ان تباہ کن گیسوں کی موجودگی نے فضا میں پائی جانے والی قدرتی حفاظتی جلد Protective shied اوزوں کی حفاظتی تہہ کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔اور کئی جگہ اس میں بڑے بڑے سوراخ ہوگئے ہیں۔ جن کی رفو گری کرنے میں سائنس دان مصروف ہیں، مگر ان سوراخوں سے براہ راست پڑنے والی شعائیں گوناگو ں بیماریوں کا سبب بن رہی ہیں اور بہت سے جگہوں پر تیزابی بارش Acid Rain ) ) برسنے کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی میں آبی آلودگی بھی اپنی تباہ کا ریوں میں کسی سے پیچھے نہیں۔ سطح زمین پر پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ سمندرہیں۔صنعتی ممالک لاکھوں ٹن سالانہ کے حساب سے آلودگی پھیلا کر نہ صرف اس عظیم ذخیرہ آب کو برباد کر رہے ہیں بلکہ اس کے اندر پائی جانے والی آبی حیات کی بربادی اور موت کا سامان کیا جارہا ہے۔ حالانکہ سطح ارض کے غذائی وسائل اب کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں۔ اور دنیا کی نظریں اب سمندری غذائی وسائل کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ مگر آبی آلودگی کے باعث بہترین پروٹین والی آبی حیات کی پیداوار خطرناک حد تک کم ہو تی جارہی ہے۔ہم زمین کے باسی اس دھرتی کو بڑے پیار سے دھرتی ماتا بھی کہتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی اتنے ناخلف اور ناہنجار بچے بن گئے ہیں کہ اپنی محبت کرنے والی ، بھوک میں پیٹ بھرنے والی، دھوپ میں سایہ فراہم کرنے والی ماں کو پے درپے نقصان پہنچا رہے ہیں۔جنگلات اس دھرتی کا حسن اور زیور ہیں۔ہم دھرتی ماں کو اس حسن اور زیور سے ہمہ وقت محروم کرنے میں مصروف عمل ہیں۔کثرت آبادی کے باعث رہائشی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہرے بھرے جنگلات کٹوا کر Human Filling Cabinets بنانے کے لیے فلک بوس پلازے تیار کیے جارہے ہیں۔ صحراؤں کا وجود بڑھتا جارہا ہے۔ہر سال لاکھوں پرندے اور بہت سے نباتات معدوم ہوتی جارہی ہیں۔ جانداروں کی 80 سے 100 ملین اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سے ہر سال 7% ختم ہوتی جاری ہیں۔ کرہ ارض پر انسانی وجود کی بقا کے لیے ہوا پانی اور غذا کی ضرورت پیدا ہوتی ہے اس کے علاوہ کچھMinerals بھی انسانی جسم کی ساخت اور نشوونما کے لیے ضروری ہیں جن کا ایک با قاعدہ نظامElemental Cycle زمین کے میڈیم میں پایا جاتا ہے۔ہم انسانوں نے اس نظام کا توازن بگاڑ کرحیات انسانی کو گو نا گوں خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ اب انسانی وجود کی بقا کو اتنے سخت مراحل کا سامنا ہے کہ اسے ہر آلودگی سے نبرد آزما ہونا پڑرہا ہے۔ہر طرف آلودگی ہی آلودگی ، غلاظت ہی غلاظت اور زہر ہی زہر ہے۔ الودگی کے نتیجے میں جنگلات کم ہو رہے ہیں۔ قدرتی وسائل ناکارہ ہوتے جا رہے ہیں۔1970 میں عالمی ذخیرۂ خوراک 89 دن کے لئے کافی ہوتا تھا۔ پھر97 19 یہ مدت صرف 38 دن رہ گئی اب پتہ نہیں کیا صورتحال ہے۔ یہ ایک عالمگیر اور آفاتی مسئلہ ہے لہٰذا س کو حل کرنے کے سلسلے میں اقوام عالم خصوصاً اعلیٰ صنعتی ترقی یافتہ ممالک کے دانشوروں کو ایک ایسا موثر فورم بنانے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ جس کے ذریعے ان کی قیمتی آراء کا اظہار اور نفاذ عملی طور پر ممکن ہو سکے۔

Print Friendly, PDF & Email