سیسہ کی خرمستیاں(قسط1)

سیسہ کا اٹامک نمبر 82 ہے اس سے آگے غیر مستحکم اور بھاری دھاتوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔ جو قدرتی طور پر تابکار ہوتے ہیں ۔ سیسہ دھاتوں کی آلودگی میں سچ مچ بازی لے گیا ہے ۔ جدید تحقیق سے بہت سی دھاتوں کے جسم انسانی میں فوائد بتائے گیے ہیں مگر سیسہ کے حوالے سے ماہرین فی الحال خاموش ہیں ۔ البتہ سیسہ کی بے دریغ صنعتی استعمال نے اسے بے حد اہم مقام بخشا ہے ۔ آج کل کے صنعتی اور شہری ذندگی کی گہمہ گہمی کے دور میں خوں میں سیسے کی مقدار چالیس مائکروگرام فی سو ملی لیٹر تک معمول کی بات ہے، جبکہ پیشاب میں 80 مائکروگرام فی ملی لیٹر تک نارمل ہے ۔ اس سے ذیادہ مقدار کے لیے فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع اور مختلف قسم کے ٹیسٹ ضروری ہوتے ہیں ۔ سیسہ کی زہر آلودگی کوئی نء بات نہیں ہے ۔ 370 قبل مسیح میں ہیوکریٹس کے بچوں اور سیسہ کے کاریگروں میں اس کے زہریلے اثرات کی نشاندہی کی تھی ۔ آج دنیا میں سیسے کی وافر پیداور اور بے تحاشا استعمال نے قیامت برپا کر دی ہے ۔ دنیا میں سیسے کا قدرتی پھیلاؤ ایک سو پچاس ہزار ٹن سالانہ ہے جبکہ بنی نوع انسان نے اسے چار ملین ٹن سالانہ تک کی خوفناک حد تک بڑھا دیا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی ناگہانی آفت یا متوقع قیامت کی حشر سامانیوں سے بچنے کے لیے فضا میں سیسے کی دیوار کھڑی کرنے کا پروگرام ہے ۔ دنیا میں سیسے کی کثیر مقدار کا تقریباً ایک چوتھائی یا 25 فیصد گاڑیوں کی ریل پیل سے جنم لیتا ہے ۔ امریکہ میں سیسہ کی آلودگی کی صورتحال خاصی خطرناک ہے ۔ مجموعی طور پر 1838000 ٹن سالانہ سیسہ امریکی شہریوں کو سنگسار کرتا ہے ۔ امریکہ اور برطانیہ میں سیسے کی سالانہ آلودگی کی مقدار ان کے خیراتی غلے اور اناج سے بھی زیادہ ہے ۔ جوں جوں سیسہ کی مقدار بڑھتی جا رہی ہے انسانی دماغ میں سیسے کی آلودگی سے دماغ کے خلل سمیت متعدد جنون اور عارضے جنم لے رہے ہیں ۔ مثلاً خون کی کمی، وزن کی کمی اور اعصابی نظام کی تباہی وغیرہ ۔ یوں تو بہت سے ترقی یافتہ ممالک نے سیاسی فضا اور معاشرتی زندگی سمیت بہت سی لطیف فضاؤں کو آلودہ کر دیا ہے مگر ماحول کی آلودگی کے ذمہ دار صف اول کے ترقی یافتہ ممالک ہیں ۔ پاکستان میں کراچی بھی اپنی پرانی گاڑیوں اور صنعتی علاقوں سمیت سیسے کی آلودگی میں کسی ترقی یافتہ ممالک سے کم نہیں ۔ سیسہ سمیت کء قسم کی آلودگی سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہو کر شاملِ خون ہوجاتی ہیں اور یوں خوراک یا پانی کی نسبت سانس کے محاذ سے آلودگی کی ضرب سب سے کاری اور خطرناک ترین ہوتی ہے ۔ خوراک کے ذریعے جسم انسانی میں داخل ہونے والے سیسے کا دس فیصد حصہ جسم ہی میں غیر قانونی طور پر سکونت پذیر ہوجاتا ہے ۔ جبکہ سانس کے ذریعے داخل ہونے والے سیسے کا 15 سے 75 فیصد حصہ شاملِ جان ہو کر وبال جان بن جاتا ہے ۔ شہری آبادی اور صنعتی علاقے چونکہ سیسہ کی آلودگی کے ذمہ دار ہیں ۔ لہذا خمیارے کا. بیشتر حصہ (lion share) انہی کو ملتا ہے ۔ بچوں میں سیسے کے لیے حساسیت زیادہ ہوتی ہے۔ بچوں کے برعکس دراصل بڑوں کی ہڈیوں میں بھی دفاعی نظام ہوتا ہے جو سیسہ کے خلاف دفاع مظبوط تر کر دیتا ہے ۔ ایک وقت تھا جب دنیا میں صنعتوں کا جال نہ تھا اس وقت انسان اتنا بدحال بھی نہ تھا ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سیسہ کا خون میں تناسب صنعت اور شہری آلودگی سے تناسب برق رفتار ترقی کے ساتھ سو گنا زیادہ ہو گیا ہے ۔ چنانچہ گھبرایا ہوا انسان آلودگی کو کم کرنے کی بجائے ناپنے کے چکر میں مخصوص درخت کے تنوں پر تحقیق کے ساتھ ساتھ قطبین کی خاک چھان چھان کر سیسے کی آلودگی کا رجحان جاننے پر توانائی صرف کر رہا ہے ۔ قدرت نے پیٹرول جیسی نعمت کو سیسے سے پاک رکھا مگر انسان نے اپنی محدود تحقیق پر سیسے کے مرکبات سے نہ صرف پیٹرول بلکہ کرہ ارض کو بھی آلودہ کر دیا ۔ آلودہ ذہن آسودہ نہیں رہ سکتا ۔ سیسے کی ایک قسم ارگینک سیسہ ہے جس کی ہاف لائف چونکہ پارہ سے ذیادہ ہوتی ہے لہذا یہ پارہ سے ذیادہ نقصان دہ ہوتا ہے ۔ سیسہ دماغ پر براہ راست حملہ نہیں کرتا بلکہ جگر میں شامل سیسہ زہر مہلک بن کر دماغ کی طرف سرایت کر جاتا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email