پرائیوٹ تعلیمی اداروں پر شب خون مارنے کی تیاری

یہ امر شبہ سے بالاتر ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت تعلیم کی بہتری کے حوالے سے اب تک گزشتہ تمام حکومتوں سے زیادہ سنجیدہ اور زیادہ فکر مند دکھائی دی ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کو آشفتہ حالی سے نکال کر تعلیم یافتہ و بااثر طبقات کی توجہ اس طرف مبذول کرانے اور لوگوں کے اعتماد کی بحالی کے سلسلے میں پی ٹی آئی کی حکومت نے جتنی سعی و جہد آج تک کی ہے، اس کی مثال سابقہ حکومتوں میں ملنی ناممکن ہے۔ اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے مانیٹرنگ یونٹ کا قیام، اساتذہ کی تعداد میں اضافہ، سبجیکٹ اسپشلسٹوں کی تعیناتی، میرٹ پر بھرتی ، انگلش میڈیم نصاب کا اجرا، یونیفارم کی تبدیلی کے ذریعے سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی احساس کمتری کے خاتمہ کی کوشش اور اسکولوں میں صفائی وغیرہ کو یقینی بنانے جیسے گراں قدر خدمات اور لائق تحسین اقدامات موجودہ حکومت کے زرین کارناموں میں شمار ہوں گے۔ ان اقدامات کو نہ سراہنا سخت قسم کا بخل ، ہٹ دھرمی ، کور چشمی اور کج فہمی شمار ہوگی۔ مگر ساتھ ساتھ ہم یہ کہنے میں بھی کوئی باک محسوس نہیں کرتے کہ ان جملہ مستحسن اقدامات اور کاوشوں کے باوجود لوگوں کی توجہ گورنمنٹ سیکٹر کی طرف مبذول کرائی جاسکی نہ کسی کاعتماد ہی بحال کرایا جاسکا۔ آج بھی معمولی آمدن والا شخص( جو بچوں کی تعلیم بارے فکر مند ہو) ہزار دقتیں سہہ کر بھی اپنے بچوں کو پرائیوٹ تعلیمی ادارے میں بھیجنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب حکومت کو اپنی ساری اصلاحات و اقدامات اور تک و دو اور جستجو رائیگان جاتی نظر آئی تو انہیں پرائیوٹ اداروں کا ٹینٹوا دبا کر مطلب براری کی سوجھی۔ اور جھٹ سے "پرائیوٹ اسکولز ریگولیٹری اتھارٹی” کے نام سے پرائیوٹ اسکولوں پر جوہری بم گرا کر اپنی سابقہ بے ثمر کاوشوں کو ثمر بار کرنے کے لیے کوششیں شروع کردیں۔قانون کی چھتری تلے ترتیب پانے والی ریگولیٹری اتھارٹی کے بعض شق اتنے شر انگیز اور مضحکہ خیز ہیں کہ دیکھتے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ساری ڈراما بازی پرائیوٹ اسکولز مالکان کے منہ کا نوالا چھیننے کے لیے تخلیق کی گئی ہے۔ پرائیوٹ اسکولوں کے طریقہ کار میں خامیوں کی موجودگی سے انکار نہیں، اورنہ وہ تنقید و اصلاح سے ماورا ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہی ادارے نہ صرف نونہالان ِ ملت کو ابتدائی معیاری تعلیم سے آراستہ کرنے میں کردار اداکر رہے ہیں بلکہ محدود وسائل کے باوجود شاہراہ ِتعلیم میں حکومت کے معاون و مددگار کا کردار ادا کر رہے ہیں ۔مگر افسوس کہ حکومت ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے بجائے ان کی گردنیں مروڑ نے پر اتر آئی ہے۔ اس بات میں دو رائے نہیں کہ پرائیوٹ اسکولز ریگولیٹری اتھارٹی کے نفاذ سے بہت سارے پرائیوٹ اسکولز از خود بند ہوجائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ پرائیوٹ اداروں کی بندش کے نتیجے میں سرکاری اسکولوں کی طرف آنے والے طلبہ کو سنبھالنے اور انھیں معیاری تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے حکومت کے پاس کونسا متبادل انتظام موجود ہے؟ سرکاری پرائمری اسکولوں کی حالت زار  سےسب واقف ہیں، درحقیقت پرائمری تعلیم کا نظام ہی ہے جو گورنمنٹ اسکولوں کی کمزور پوزیشن کی اصل وجہ ہے۔ جہاں پانچ سے سات کلاسز کے لیے دو کمرے اور طلبہ کی (محض)” نگرانی” کے لیے دو اساتذہ تعینات ہوں، وہاں مزید طلبہ کی آمد سے رہی سہی تعلیمی معیارکا دریا برد ہونا تو مبرم ، نہ معلوم اس سے اور کتنی دقتیں و مسائل جنم لیں گے۔ والدین شاید اس بات پہ خوش ہوں گے کہ تعطیلات کے دوران انہیں فیس کی ادائیگی سے چھوٹ مل گئی، مگر یا د رہے کہ اس قانون سے جب بہت سارے پرائیوٹ اسکولوں کو تالا لگ جائے گا تو حکومت کی طرف سے متبادل معیاری تعلیم کا کوئی انتظام ہوگا نہ وہ اپنے بچوں کو باقی بچنے والے کسی پرائیوٹ اسکول میں داخل کر نے کے متحمل ہوں گے۔ کیوں کہ چند پرائیوٹ اسکول جو اس حملہ میں زندہ بچیں گے، وہ قصداًیا مجبوراً فیس میں اتنا اضافہ کریں گے کہ عام آدمی کے لیے وہاں کا رخ کرنا ممکن نہ رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے دورِ آخر میں صوبائی حکومت عوام الناس کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے اُس اوچھے ہتھکنڈےپر اتر آئی ہے جو مستقبل میں خود حکومت، طلبہ اور والدین سب کے لیےیکساں درد سر بننے والا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email