سراج الحق نے مولانا کو آزمائش میں ڈالدیا!

اس میں کوئی شک نہیں کہ جمعیت علماء اسلام کا صد سالہ اجتماع  ایک عظیم اجتماع تھا۔ ایسے کامیاب ، بھر پور اور بر محل اجتماعات کا اعزاز  سیاسی جماعتوں کے نصیب میں گاہے گاہے آیا کرتے  ہیں۔ قائد جمعیت  سیاسی مدو جزر کے رمز شناس ، صاحب فہم و فراست  اور گوناگوں صلاحیتوں کےمالک شخصیت ہیں۔ وہ سیاسی داو پیچ کی نہ صرف خبر رکھتے ہیں بلکہ موقع کی مناسبت سے فوائد سمیٹنے کا گر بھی خوب جانتے ہیں۔ ان کی سیاسی بصیرت  اور ہنر مندی کا  ہر شخص معترف  ہے ۔ حالیہ اجتماع عام بھی ان کی سیاسی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس اجتماع سے نہ صرف جے یو آئی نے اپنی سیاسی قوت کا بھر پور مظاہرہ اور 2018 کے عام انتخابات کی تیاریوں کا آغاز کیا ، بلکہ   اس ہلچل سے سیاسی پارٹیوں  کے ثابت سفینے بھی جنبش پا کر حرکت کرنےپر مجبور ہو ں گے۔

اجتماع کی خاص بات مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہان   اور مکاتب فکر کے نمائندوں کی شرکت  تھی۔مولانا صاحب نے کسی کو خطاب کا موقع دینے میں بخل سے کام نہ لیتے ہوئے ایک اچھی روایت قائم کی۔ اگر خان صاحب اور مولانا سمیع الحق صاحب کو بھی اس اجتماع میں شرکت کی دعوت دی جاتی  تو اجتماع کا مزا ہی کچھ اور ہوتا۔  اجتماع نظم و ضبط، تیاری اور حاضری کے اعتبار سے ایک کامیاب اجتماع تھا۔ اجتماع کی مدح و قدح میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور مزید بھی لکھا جاتا رہے گا۔ اس اجتماع کے حوالے سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا خطاب ہمارے لیے  دلچسپی کا بے شمار سامان لیے ہوئےہیں۔ لہٰذا ہماری مزید خامہ فرسائی اسی پر ہوگی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبہ خیبر کی مذہبی ذہن رکھنے والی ایک کثیر آبادی دینی جماعتوں کی یکجائی چاہتی ہے اور  مذہبی جماعتوں  کے علیٰحدہ آنے پر نہیں  بلکہ  اتحاد   کی صورت میں ان کے حق میں ووٹ استعمال کرنے کی خواہش رکھتی ہے ۔  اس حقیقت سے جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کی قیادت بخوبی آگاہ ہےاور دونوں طرف کی قیادت یہ بھی جانتی ہے کہ اتحاد کی صورت میں  نہ صرف  کے پی کے میں  بہ آسانی حکومت بنائی جاسکتی ہے بلکہ قومی اسمبلی میں بھی خاصی تعداد میں اپنے اراکین کو پہنچایا جاسکتا ہے۔  اس حقیقت سے آگاہی اور عوامی مطالبہ کے باوجود دونوں جماعتیں اپنی مخصوص ترجیحات اور  عرصہ دراز سے چلی آئی نظریاتی کشاکش کی وجہ سے ایک دوسرے کے  قریب آنے سے گریزاں ہیں۔ جہاں تک نظریاتی کشمکش کی بات ہے، اس کو سیاسی مقاصد کے بھینٹ چڑھاکر بظاہر شیر و شکر بننا  کسی کے لیے مشکل نہیں ہے، اس کا بھر پور مظاہر ہ ہم ایم ایم اے کی صورت میں دیکھ آئے ہیں۔  البتہ گہری کھائی دونوں کے درمیان  ترجیحات کے معاملے میں آپڑی ہے۔ جے یوآئی کے پیش نظر اس وقت ہر صورت میں پی ٹی آئی کی سونامی  اور عفریت کے آگے بند باندھنا ہے اور اب کی بار وہ کسی صورت   انھیں سر اٹھاتے دیکھنا نہیں چاہتی۔ اس کے علاوہ پنجاب میں اِدخال بھی مولانا صاحب  کی ترجیحات میں شامل ہے۔ ان دو مقاصد کے حصول کے لیے انھیں یقینی طور پر نون لیگ کی استعانت درکار ہوگی، سو مولانا صاحب کی نظریں اِس وقت دوسری طرف اٹھ ہی نہیں رہی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ نون لیگ فی الحال مولانا کے چارٹر آف ڈیمانڈ  کوحجم سے بڑھ کر سمجھتے ہوئے تسلیم کرنے سے ہچکچا رہی ہے۔ بہرحال پی ٹی آئی چونکہ دونوں کا مشترکہ مسئلہ ہے، لہٰذا ا ُمید کی جاتی ہے کہ مولانا صاحب دھیرے دھیرے دفعِ ضرر کا سبق پڑھا کر میاں صاحب   کو منا نے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ دوسری طرف جماعت اسلامی کو بھی یہ یقین ہو چلا ہے کہ اس بار مولانا صاحب  نے نہ صرف نظریں کافی اونچی رکھی ہیں بلکہ  صوبہ میں پی ٹی آئی کی حمایت کی  وجہ سے  وہ جے آئی سے بے حد  ناراض بھی ہیں۔  اس صورتحال میں دونوں جماعتوں کا اتحاد خواب نظر آتا ہے۔ مگر مولانا صاحب نے سراج الحق صاحب کو اپنے اجتماع میں خطاب کا موقع دیکر وقتی طور پر اپنے آپ کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ سراج الحق صاحب پوری صورتحال سے آگاہ ہونے کے باوجود  موقع پا کر اتحاد کا اختیار مولانا کے سپر د کرکے زبردست سیاسی بالغ النظری کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس تفویض ِ اختیار کے اعلان کے وقت اتحاد پسند مذہبی طبقے کی خواہش کا پاس رکھنا  اور اتحاد نہ ہونے کی صورت میں (جو کہ یقینی ہے)  اپنی جماعت کو مطعون ہونے سے بچانے اور نیوٹرل مذہبی  لوگوں کی ہمدردی  حاصل کرنے کی پالیسی  یقینا سراج الحق صاحب کے پیش نظر ہوگی۔  اب دینی جماعتوں کے اتحا د کا کلی اختیار مولانا صاحب کے پاس ہے۔ سو یہ ان کی بصیرت کا امتحان ہے کہ وہ وقتی مسائل اور عارضی فوائد  کے پیش  نظر مذہبی  ووٹروں کے ارمانوں کا خون کرکے ہمیشہ کے لیے انھیں اپنے آپ سے دور کرتے ہیں یا   ان کی خواہش کا خیال رکھتے ہوئے  ہمیشہ اپنے ساتھ جڑے رکھنے کی پالیسی اپناتے ہیں۔ مولانا صاحب ایک بیدار مغز سیاستدان ہیں، یقینا وہ  جو بھی کریں گےدیر پا فوائد کے پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی  کریں گے۔ اب "دیر پا فوائد ” پنجاب میں  قدم جمانے میں ہے یا خیبر کے مذہبی طبقے کو خوش رکھنے میں ، یقینا اس کا ادراک ہم سے زیادہ مولانا صاحب کو ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے