وہی جہاں ہے تیراجس کو تو کرے پیدا

عرصہ پہلے گورنمنٹ اسکولز میں تعلیم کی حالت زار کے حوالے سے چند ایک حقائق پر اظہار ِ خیال سے پوری اساتذہ برادری احتجاج پر اتر آئی تھی۔کوئی خدا کا بندہ غلطی بتانے پر تیار تھا نہ سمجھانے پر آمادہ، بس اختلاف کرتے جاتے تھے۔ اساتذہ سے بڑھ کر اس حقیقت سے کون باخبر ہوگا، کہ قوموں کے عروج  و سربلندی کا راز اس  کے نظام تعلیم کی مقصدیت اور نسل ِنو  کی تعلیم و تربیت میں پوشید ہ ہے۔  یہ حقیقت مُسَلَّم!  کہ معاشرے میں پھیلے  محاسن  یا  قبائح کے سوتے  حکومتی تخت کے نیچے  سے پھوٹ پڑتے ہیں، یعنی حکومت ہی منبع ِ خیر و شرہے۔مگر بناؤ اور بگاڑ میں قوم کا کردار بھی  کچھ کم اہمیت کا حامل نہیں ہوتا۔ سارا ملبہ حکومت کے کھاتے میں ڈال کر ہم لوگ اپنی ذمہ داریوں سے ہر گزعہدہ برا نہیں ہوسکتے۔ بحیثیت قوم ہماری بھی کچھ ذمہ داریاں اور فرائض بنتے ہیں، جنھیں اگر  خلوص ِدل اور لگن سے سر انجام دیئے جائیں تو بہت سارے مسائل میں حکومتی مداخلت سے بے نیازہوسکتے ہیں۔مانا کہ نظام تعلیم میں بہت ساری پچیدگیاں اور خرابیاں موجود ہیں، مگر اس حقیقت سے بھی مفرممکن نہیں ، کہ حکومت کی طرف سے چترال جیسے پسماندہ علاقہ کے کونہ کونہ میں پرائمری، مڈل  اورہائی اسکولز (گرلز  و بوائز) کاجال بچھ گئے   ہیں۔تنخواہ کے علاوہ دیگر اخرجات میں حکومت کی طرف سے(صرف ہمارے ضلع میں) سالانہ  کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے  ہیں۔ بلڈنگز کی تعمیرات کی مد  میں خرچ ہونے والی رقم کا اندازہ لگایا جائے تو حساب اربوں سے تجاوز نظر آتا ہے۔ اب ان دسیتاب وسائل اور صلاحیت کو درست  سمت میں بروئے کار لاکر حکومتی اداروں پر قوم کا اعتماد بحال کرنا کیا ہماری ذمہ داری نہیں ہے؟ یا پھر اس کے لیے بھی کسی ‘شریف’  یا ‘رزیل’   کا آنا اور آکر کام سنبھالنا ضروری ہے؟اساتذہ کا غالبا سب سے بڑا مسئلہ "ٹرانسفر” کا مسئلہ ہے، سب کو  یہی غم کھایاجارہا ہے اور ہر کوئی اپنے قریبی اسٹیشن کو اپنا "حق”قرار  دیکراس کے لیے سرگرداں نظر آتا ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا مجموعی مزاج ہے کہ ہم "حقوق” کی بات اور  اس کے لڑائی تو بڑی جوانمردی سے لڑتے ہیں، مگر حقوق کے مقابل ایک چیز "ذمہ داری” کے نام سے بھی پائی جاتی ہے، افسوس کہ کسی کا دھیاں اس طرف نہیں جاتا۔ الاونسز، بونس، ٹی اے ڈی اے اور نہ معلوم کتنے "حقوق "حکومت پر واجب  ہوتےہیں، مگر ان سارے نِعَم جس  چیز کی عوض ہمار احق ٹھہرتے  ہیں، اس کی کسی کو پروا  ہی نہیں ہوتی۔

جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد                پر طبیعت اُدھر نہیں آتی

جلبِ حقوق کی مشتاقی اور   فرائض کی ادائیگی  سے فرار کسی ایک طبقہ کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ  ہم سب کی” فطرت ِ ثالثہ ” بن چکی ہے۔ بنیادی انسانی اخلاقیات سے دوری اور ذاتی منفعت  کی چاکری نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑ رکھا۔  دنیا کس رخ پر رواں ہے، اور ہمارے بارے میں کیا کیا تدبیریں سوچی جارہی ہیں، سب کو معلوم ہونے کے باوجود سب تجاہل عارفانہ میں مبتلا        ہیں۔ یہ جوآج  یورپ ترقی کے بامِ عروج کو چھورہا ہے اس کا  سبب صرف  سائنسی کرشمات  ہی نہیں ، بلکہ وہ بنیادی انسانی اَخلاقیات ہیں، جنھیں یہ لوگ حزرِ جاں بنائے بیٹھے ہیں اور حقیقت میں سائنس کی ترقی کے پیچھے بھی اسی جوہر ِگراں مایہ  کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ ارادے کی قوت، صبر و ثبات، عزم و جزم، صبر و تحمل، جہد وسعی، جوانمردی و پامردی، مستعدی و جفاکشی ، مقصد کا عشق اور اس کے لیے ہرچیز قربان کرنے کا مصمم ارادہ ، حکمت و تدبر، معاملہ فہمی و دانشمندی، حالات کو سمجھنے اور اس کے لیے مناسب تدبیر کی اہلیت، جذبات  اور خواہشات پر قابو پانے کی طاقت ،دوسروں کے دل موہنے اور اس میں جگہ پیدا کرنے کی صلاحیت وغیرہ ایسے محاسن ہیں کہ اقوام یورپ ان محاسن کو اپناتے ہوئے ترقی کی معراج  کو سر کرنے میں کامران ٹھہرے ہیں۔ پھر  خودداری، فیاضی ، ہمدردی، عدل و انصاف، وسعت ِ نظر ، دیانت و  امانت، راست بازی، پاسِ عہد، معقولیت، طہارت و نظافت سب مل کر اس سرمائیہ انسانیت کو مزید مستحکم بناتے ہیں اور ان سے ایک طاقت ور اجتماعیت وجود میں آتی ہے۔  اس اجتماعیت کو ناقابل تسخیر قوت بنانے کے لیے قوم کے بیشتر افراد  کا کسی نصب العین پر متفق ہونا نہایت ضروری ہے۔  پھر اس نصب العین کو اپنی انفرادی اغراض ، بلکہ اپنی جان ، مال اور اولاد سے بھی عزیز تر رکھنا ، آپس  کی محبت، مل کر کام کرنا ، صحیح اور غلط رہنما میں تمیز کرنا اور موزوں آدمیوں کو اپنا رہنما چننا بھی لازمی عمل ہے۔ان کی مزید ترقی و کامرانی کے لیے  ان کے رہنماؤں میں اخلاص اور حسن تدبیر اور رہنمائی کی تمام صفات موجود ہوں، اور خود قوم اپنے رہنماؤں پر اعتماد رکھتی ہو اور اپنے تمام ذہنی ، جسمانی اور مادی  ذرائع ان کے تصرف میں دینے پر تیار ہو۔ نیز پوری قوم کے اندر ایسی زندہ اور حساس رائے عام پائی جاتی ہو جو کسی ایسی چیز کو اپنے اندر پنپنے نہ دے جو اجتماعی فلاح کے لیے مضر ہو۔

یہ ہیں وہ اخلاقیات ، جنھیں اپنا کر قومیں عروج پاتی ہیں۔ یقینا یہی اخلاقی اوصاف انسان کی اخلاقی طاقت کا اصل منبع ہیں اور انسان کسی مقصد کے لیے بھی دنیا میں کام کامیاب  سعی نہیں کرسکتا ، جب تک ان اوصاف کا زور اس کے اندر موجود نہ ہو۔ اور اپنی مثال سب کے سامنے ہے۔  غور کیجئے کہ ہماری نکبت و بدحالی کی اصل وجہ کیا ہے۔آئیں! ہم سب اپنے انفرادی و اجتماعی معاملات، سیاسی سوچ اور تمدنی میلانات کو  ان اوصاف  حمیدہ کے سامنے رکھ کر اور  ترازو میں تول کر دیکھتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کیا ان حالات میں ترقی کی شاہراہ پر کامرانی حاصل کرنا ، مقابلے کی دوڑ میں آگے نکلنا ہمارے لیے ممکن بھی ہے؟ اور کیا پاکستان کے مستقبل کی ضوفشانی کے لیے ہمارے انفرادی اور اجتماعی معاملات گارگر ثابت ہوسکتے ہیں؟؟؟

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے