دین سراسر خیر خواہی ہے

اللہ تعالی نے انسانوں کی ہدایت کے لیے اپنے نبی آخر الزمان کے ذریعے اسلام کی صورت میں جو اب دی اور دین نازل فرما یا ہے، وہ ہرطرف سے رحمت ہی رحمت اور مؤدت ہی مؤدت اپنے اندر سمیٹا ہوا ہے۔ اس کے قوانین ہر دور کے انسانوں کے لیے قابل عمل اور لچک دار اصولوں پر استوار ہیں۔ اس کی جزیات میں وسعت، احکامات میں حکمت اور تادیبوں میں مصلحت کار فرما ہیں۔ یہ دین مبین انسانوں کو مشکلات سے سہولت کی طرف، سختی سے نرمی کی طرف اور جدل سے صلح کی طرف لے جانے والا سراسر خیر خواہی کا دین ہے۔ اس کے کسی پہلو میں سختی کا عنوان نظر نہیں آتا۔ یہ اپنے ماننے والوں کو ایک عالمگیر اُخوت کی رسی میں پرونے کے ساتھ ان کے لیے قابل عمل ایک نظام دیتا ہے۔ دور جدید میں مخالف اسلامی قوتوں نے اس کے قوانین کے حوالے سے جو عام غلط فہمیاں پید ا کررکھی ہیں ، افسوس کہ مسلمان ان کو جانچے اور اسٹیڈی کیے بغیر دشمنوں کی پھیلائی افواہوں پر صاد کیے بیٹھے ہیں۔ پھر غضب یہ کہ موجودہ دور میں اسلام کے چند "ناداں دوستوں ” کی خود ساختہ حرکتوں کو اسلام کی” تعلیمات” سمجھ کرلوگ دین حق سے برگشتہ ہوتے جارہے ہیں اور دین حق کی آبیاری میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کےان ناداں دوستوں کی وہ کارستانیاں ہیں، جو محض جہالت کی سوچ سے جنم لی ہوئی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق ہمارے معاشرے میں نوجوانوں کا اسلام سے دوری کا رجحان پیدا ہوتا جارہا ہے۔ ہم اس عمل کو بھی چند لوگوں کے خود ساختہ تصور دین کا شاخسانہ ہی سمجھتے ہیں۔کیونکہ ایک نوجوان وقت ِ نماز پر ٹوپی کے بغیر مسجد میں داخل ہوتا ہے، تو ہمارا معاشرہ اسے ڈانٹ پلا کر باہر نکال دیتا ہے، یعنی ان کےخود ساختہ تصور کے مطابق ٹوپی پہننے کو نماز سے اہم گردانا گیا ہے۔ حالانکہ قرآن ،نماز میں انسان کو زینت اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے، اب ایک شخص ننگے سر رہنے کو” زینت” سمجھتا ہے، مگر ہمارا معاشرہ اسے زبردستی اپنا "تصور زینت” اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ کالج کی تعلیم کو نہ معلوم کن کن ناموں سے یاد کرکے جدید اذہان کو کنفیوز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔انہی باتوں کی وجہ سے ایک نوجوان اسلام کو ترقی دشمن دین تصور کرکے راہ جدا کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ مگر اللہ کا دین اس قسم کی باتوں سے بری الذمہ ہے۔ وہ ٹوپی پہنے کو فرض گردانتا ہے نہ پینٹ کے استعمال کو حرام قرار دیتا ہے۔ کالج کی تعلیم کو ممنوع ٹھہراتا ہے نہ مدرسہ میں پڑھنے کو لازم سمجھتا ہے۔ جب حضورﷺ کے اسوۂ حسنہ کو سامنے رکھ کر اپنے معاشرے کا جائزہ لیا جاتا ہے تو ہر چیز میں تفاوت ہی نظر آتا ہے۔

مشہور واقعہ ہے کہ ایک روز بدووں کا ایک وفد حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے آیا، دوران ملاقات ایک شخص محفل سے اٹھ کر مسجد نبوی کے اندر ہی کونے میں قضائے حاجت کے لیے بیٹھ گیا، صحابہ اس کی طرف لپکنے والے تھے کہ حضور نے انھیں منع کیا ، جب وہ شخص اپنی حاجت پوری کرکے واپس آیا، تو آپ ﷺ نے صرف اتنا کہا کہ "یہ اللہ کا گھر ہے، اس کے اندر یہ کام مناسب نہیں۔” اب اندازہ لگائیں کہ اگر یہ کام ہمارے ہاں ہوجائے تو اس شخص کا کیا حشر کیا جائے گا۔ پھر ہم اسلامی قوانین کو سخت سے سخت دیکھنے اور باور کرانے کے خواہاں ہیں اور معمولی معمولی باتوں کو بڑی بات قرار دیکر دنگل مچانے سے گریز نہیں کرتے۔ جبکہ اسلامی تعلیمات اس سوچ کی سراسر نفی کرتی ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ "اللہ تعالیٰ تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے اور تمھیں مشکل میں ڈالنا نہیں چاہتا”۔ حضورﷺ امت کےعلماء اور واعظوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یسرواولا تعسروا بشروا ولا تنفروا یعنی "آسانیاں پید اکرو اور (امت کو) مشکل میں نہ ڈالو، خوشخبریاں سناؤ اور (لوگوں کو) متنفر مت کرو۔” دوسری جگہ امت کو نصیحت فرماتے ہیں: "بلاشبہ تم لوگوں کو آسانیاں پید ا کرنے کے لیے بھیجے گئے ہو، اس لیے نہیں بھیجا گیا کہ تم تنگی پیدا کرو۔” پھرشریعت اسلامی کی وسعت نظری اور قوانین میں لچک کا معاملہ کتنا معنی خیز ہے۔ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ "مسلمانوں سے سزاوں کو دور رکھو جہاں تک بھی ممکن ہو اور اگر کسی ملزم کے لیے سزا سے بچنے کا کوئی راستہ نکلتا ہے تو اسے چھوڑ دو۔” اسلام میں بدکاری کی جو سزا مقرر ہے اس کے اجرا کے لیے چار چشمِ دید گواہ یا پھر کسی انسان کا خود اقرارِ جرم کے علاوہ کوئی اور ذریعہ قابل قبول نہیں ہے۔یہاں تک کہ کسی عورت کا خاوند کے بغیر حاملہ بننا بھی جرم کے اثبات کے لیے کافی دلیل نہیں سمجھا جاتا۔ کسی انسان کو اقرار جرم کے لیے تعذیب سے گزارنے کا تصور بھی اسلامی شریعت میں نہیں پایا جاتا۔ کسی جرم کا از خود اقرا ر کرنے والا شخص اگر عین سزا کے اجرا کے وقت جرم کی صحت سے انکار کردے، تو اس کو سزا سے بری سمجھا جائے گا خواہ صاف معلوم ہی کیوں نہ ہو رہا ہو کہ وہ سزا سے ڈر کر انکار کررہا ہے۔ کوئی شخص جرم کے اقرار کے ساتھ کسی شریک مجرم کا نام بھی بتا دے، تو اسے طلب کرکے پوچھا جائے گا کہ کیا آپ واقع اس کے شریکِ جرم ہیں؟ اگر وہ انکار کردے تو مزید کسی تحقیق کے بغیر بری کردیا جائے گا۔ پھر سزاؤں کے اجرا ءکے معاملے میں بھی انسان کی توہین اور سخت قسم کی مار کی قطعاً اجازت نہیں، ضربِ تازیانہ میں ہاتھ کھینچ کر اور ٹکٹکی باندھ کر مارنے کی ہر گز اجازت نہیں۔ اس کی کیفیت کے متعلق اشارہ قرآن کے لفظ فَاجلدُوا میں ملتا ہے۔ جَلد کا لفظ جِلد (کھال) سے ماخوذ ہے۔ اس سے تمام اہل لغت اور علمائے تفسیر نے یہی معنی لیے ہیں کہ ما ر ایسی ہونی چاہیے جس کا اثر جلد تک رہے ، گوشت تک نہ پہنچے، ایسی ضربِ تازیانہ جس سے گوشت کے ٹکڑے اُڑ جائیں، یا کھال پھٹ کر اندر تک زخم پڑجائے ، قرآن کے خلاف ہے۔ شریعت میں یہ کام اجڈ جلادوں کے بجائے علم سے بہرور لوگوں سے مار کا کام لینے کا حکم ہے۔ حضرت عمرؓ مارنے والے کو ہدایت کرتے تھے کہ لاترفع ابطک”اس طرح مار کہ تیری بغل نہ کھلے ” یعنی پوری قوت سے ہاتھ تان کر نہ مار۔ تمام فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ضرب زخم ڈال دینے والی نہیں ہونی چاہیے۔ سر، منہ اور شرم گاہ پر مارنے کی اجازت نہیں، باقی ہر عضو پر کچھ نہ کچھ مار پڑنی چاہیے۔ اس کے علاوہ سخت سردی اور سخت سردی میں مارنا ممنوع ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ "اس امت میں ننگا کرکے اور ٹکٹکی باندھ کر مارنا حلال نہیں ہے۔” پھر یہ کہ حدود کے علاوہ کسی جج کو دس سے زیادہ کوڑوں کا حکم نافذ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اسلام میں ضرب تازیانہ کے قانون کی ان تفصیلات کو دیکھیے اور پھر ان لوگوں کی جرات کی داد دیجیئے جو اسے تو وحشیانہ سزاکہتے ہیں، مگر وہ سزائے تازیانہ ان کے نزدیک بڑی مہذب سزا ہے جو آج جیلوں میں دی جارہی ہے۔ اس کام کے لیے ایک آدمی خاص طور پر تیار کیا جاتا ہے وہ ہمیشہ اس کی مشق کرتا رہتا ہے اس غرض کے لیے بید بھی خاص طور پر بھگو بھگو کر تیا ر کیے جاتے ہیں تاکہ جسم کا چھری کا طرح کاٹ دیں۔ مجرم کو ننگا کرکے ٹکٹکی سے باندھ دیا جاتا ہے تاکہ وہ تڑپ بھی نہ سکے۔ جلاد دور سے بھاگتا ہوا آتا ہے اور پوری طاقت سے مارتا ہے، ضرب ایک ہی مخصوص "حصہ جسم” پر مسلسل لگائی جاتی ہے یہاں تک کہ گوشت قیمہ ہو کر اڑجاتا ہے اور بسا اوقات ہڈی نظر آنے لگتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ طاقت ور سے طاقت ور آدمی بھی پورے تیس بید کھانے سے پہلے ہی بے ہوش ہوجاتا ہے۔ اس "مہذب” سزا کو جو لوگ آج جیلوں میں خود نافذ کررہے ہیں ان کا یہ منہ ہے کہ اسلام کی مقرر کی ہوئی سزائے تازیانہ کو "وحشیانہ” سزا کے نام سے یا د فرمائیں! پھر ان کی پولیس ثابت شدہ مجرموں کو نہیں بلکہ محض مشتبہ لوگوں کو تفتیش کی خاطر جیسے جیسے عذاب دیتی ہے وہ آج کسی سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے