کیریرکونسلینگ (پہلا حصہ)

نوجوانوں میں بے چینی ،زہنی دباو اور پریشانیوں کے بہت سارے وجوہات میں سےایک وجہ یہ بھی ہے کہ اج کا ہمارا نوجوان جب یونیورسٹی یا کالج سے ڈگری لیکرنکلتا یا نکلتی ہےتواپنے مستقبل کےغرص سے وہ ادھرادھرہاتھ پاوں مارنے لگتا ہے کہ اب اسے کیا کرنا ہےاورکونسا شعبہ اختیارکرنا ہے۔ بس اسی تگوداومِیں بھآگتے بھآگتےبعض اوقات کچھ ہاتھ نہ انےپرمایوسی اور نا امیدی کا شکارہوکربیٹھ جاتا ہےکیونکہ اس نے کرنا کچھ اورتھآ اورکیا کچھ اورہوتا ہے اورخصوصآ ہمارے معاشرے میں بیٹوں پرروزگاراورزرئعہ معاش کا انتہائی بوجھ ہوتا ہے کیوںکہ خآندان اور بچوں کی کفالت اگے جاکر اسی نوجوان نے کرنا ہوتا ہے تو وہ اس کو زیادہ سرپرسوار کرلیتے ہیں۔ روزگار کا غم تعلیم یافتہ اوران پڑھ دونوں طبقوں کوایک ہی طرح سے ہوتا ہے مگرتعلیم یافتہ نوجوانوں پراس لحاظ سے دباو زیادہ ہوتا ہے کہ ماں باپ نے اپنی پوری عمر کی کمائی اور جمع پونجی بیٹے کے تعلیم میں خرچ کردی ہوتی ہے اس وجہ سےیہاں توقعات زیادہ جنم لیتے ہیں اسطرح کچھ ہا تھ نہ انے پر ان توقعات کے بوجھ تلےیہ نوجوان زہنی پریشانی میں دب جاتا ہےمگراج کل یہ سلسلہ بیٹیوں کے ساتھ بھی جوڑ چکا ہے کیوںکہ بیٹیوں کی تعلیم پر بھی لوگ ایسے ہی خرچ کرتے ہیں تاکہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اپنے ساتھ ساتھ ماں باپ اورخآندان کی ایسی ہی کفالت کریں جیسے بیٹے کرتے ہیں بہت سی ایسی بچیاں ہیں جو تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے والدین اورخآندان کی کفالت خوشی سے کر رہی ہیں۔

۔یہ تمام مسائل اس وجہ سے جنم لیتے ہیں کیونکہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ابتدائی دنوں میں ہی کیریر کے حوالے سے طالب علموں کی کوئی راہ نمائی نہیں کی جاتِی ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کا واحد مقصد صرف کورس کو پورا کرانا ہوتا ہے اگر ابتدا میں ہی بچوں کی صلاحیتوں کی جانج پڑتال میں ان کی مدد کرکے ان کی مہارات اور قابلیت کے مطابق مضامین کا انتخاب کرنے میں ان کی مدد کی جاَئے تو ہائی لیول پر جاکروہ خود اس قابل ہوجاتے ہیں کہ اپنے من پسند مضمون کے زرئعے ا پنے دلچسپی کا فیلڈ منتخب کریں۔

مگر ہمارے ہاں بچوں کو وقت پرکیرییرکےحوالے سے کوئی راہ نمائی نہیں ملتی اور اخیرمیں جا کراسے احساس ہوجاتا ہے کہ اسے اِس سبجیکٹ، فیلڈ یا اس کیریر کا انتخآب ہی نہیں کرنا چاہیے تھا۔جس وقت اسے اس بات کی سمجھ اجاتی ہےاس وقت بہت دیرہوچکی ہوتی ہے اس کے ساتھ جڑا ایک اور مسئلہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں یونیورسٹیوں تک رسائی نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی تو بڑھتی جا رہی ہے مگران لاکھوں طالب علموں میں سے صرف کچھ ہی ایسے ہوتے ہیں، جن کا انتخاب کردہ مضمون یا شعبہ واقعی ان کا پسندیدہ ہوتا ہے، نتیجتاً اکثرطالب علم کبھی بھی اپنے منتخب کردہ شعبے میں بلند معیار کی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپاتے، جو اس شعبے کا تقاضہ ہوتا ہے یہ بھی نوجوانوں میں زہنی دباو کی ایک معقول وجہ ہے۔۔۔ ۔جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email