ارکاری ویلی اورلڑکیوں کے تعیلمی مسائل

انسانی بنیادی حقوق کے نظریے کے تحت تمام انسان یکسان طورپرتمام سہولیات اورحقوق کے حقدار ہیں اوراسی لیے ازل سے اب تک انسان اپنی ضروریات، سہولیا ت اوربنیادی حقوق کے حصول کی خاطرایک نہ ختم ہونےوالی جدوجہد میں مصروف عمل ہے جب ہم بات بنیادی سہولیات کی کرتے ہیں توان میں سب سےاہم سہولت تعلیم تک سب کی بلا امتیاز رسائی ہےخصوصا لڑکیوں کی۔۔۔۔۔۔۔۔ دو دن پہلےچترال کے دورافتادہ گاوں ارکاری کے مختلف علاقوں کے سکولوں میں جانے کا موقعہ ملا۔ یقین جانیے مجھے دوباتوں پرشدید رونا اگیا اول تواس بات پرکہ میں تقریبا دس پندرہ سالوں سے خواتین کے مختلف مسائل پرمختلف اخبارات کولکھ رہی ہوں اس کےساتھ ساتھ میں تقریبا ہرپلیٹ فارم اورمیڈیا میں ان کے لیَے اوازبھی اٹھاتی ائی ہوں ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔مگر افسوس جن جن مساِئل خصوصآ تعلیمی مساِئل کو میں نے ضروری سمجھ کران کے لئے اواز اٹھآِئی ہےان میں سےایک کا بھی تعلق ارکاری کی بچیوں کی تعلیمی مسایل سےنہیں تھآ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ چترال ٹاون کے اندرجوتعلیمی روکاوٹیں ہیں ان میں اور ارکاری کے تعلیمی مسائل میں زمیں و اسماں کا فرق ہے۔۔۔۔۔۔۔ دوسری بات جس پرمجھے شدید رونا اگیا وہ یہ تھآ کہ ۴ یا ۵ گھنٹے کا فاصلہ طے کرنے کے باوجود ایک بچی پڑھنے اور کچھ بننے کا جزبہ اور شوق رکھےاس کو سلام پیش کرتی ہوں ۔ پیدل سکول کی طرف روان دو مڈل لیول کی بچیوں کے ساتھ راستے میں میری ملاقات ہوئی ۔ایک بچی کا کہنا تھآ۔۔۔۔۔۔ کہ میم میں بڑے ہوکر ڈاکڑ بنوں گی اوراپنےعلاقے کے لوگوں کے لیے ہسپتا ل بننواوں گی کیونکہ یہاں ہمیں اس سہولت تک پہنچنے کے لیے کِئی گھنٹے کی مسافت طے کرنی پڑتی ہے تب جاکے ہمیں یہ سہولت میسر اتی ہے۔۔۔۔۔۔ دوسر ی بچی کا مجھے حیران کن جواب یہ ملا کہ میں سیاستدان بنوں گی اپنےعلاقے کی سڑکوں کو پختہ کروں گی اور حکومت سے زیادہ سے زیادہ سکول کا مطالبہ کروں گی تاکہ میرےعلاقےکی بچیاں میری طرح ادھا دن سفر کرکے سکول نہ پہچے اور جو پیدل چلے ان کو چلنے کے لیے صیح راستہ ملے۔۔۔۔۔۔۔ ان کی باتوں سے مجھے شدید رونا اگیا کیونکہ بچپن میں مستقبل کی منصوبہ بندی ہمیشہ بچپن کے خوابوں کی طرح نہ پختہ ہوا کرتی ہے مگر یہاں تو اس بچی نے مجھے حیران کر دیا ۔ان بچیوں کی اس طرح کی سنجیدہ منصوبہ بندی اس بات کا ثبوت ہے کہ مشکلا ت اورغربت انسان کو وقت سے پہلے سنجیدہ کردیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غربت نے میرے بچوں کو تہذیب سکھا دی
سہمے ہوے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے

میرے اس حالیہ دورے نے میری انکھیں کھول دی یقین جانیےمیرا ضمیرمجھے تب سے ملامت کررہاہےکہ میں نے ان کے بارے ایک دفعہ بھی کیوں نہیں لکھآ اخیروہ بچیاں بھی توچترال کا حصہ ہیں۔

  1. جو صبح تین بجے اٹھ کرسکول بیگ میں چاپاتی رکھ کرادھآ دن کا سفرکرکےسکول پہنچ پاتی ہیں۔
  2.  اخیروہ بچیاں بھی تومیرے چترال کی بچیاں ہیں جو ایک ہاتھ میں گاَے کی رسی اوردوسری ہاتھ میں کتا ب لیکر ایک وقت میں پڑھتی بھی ہیں اور گائے بھی چراتی ہیں۔
  3. اخیر وہ بچیاں بھی میرے چترال کا حصہ ہیں جومڈل یا پراِئمری کے بعد پڑھنے کا شوق تو رکھتی ہیں مگرغربت کی وجہ سے نہیں پڑھ پاتی۔
  4.  اوروہ بچیاں جو سولہ سال میں بیاہی جاتی ہیں۔
  5.  اوروہ بچیاں جو گھروکھیتوں میں کام کاج زیا دہ ہونے کی وجہ سے پڑھ نہیں پاتی۔
  6.  اوروہ بچیاں جن کو صیح کھانہ اس لیے میسر نہیں کہ ان کی عادت خراب ہوجاَے گی کیونکہ ان کو دوسرے گھر جانا ہوتا ہے۔
  7.  وہ بچیاں جو ادھا دن سفر کرکے مشکل سے سکول پہنچ بھی جاے توسکول میں پھر ٹیچر کا مسئلہ یہ سب بھی میرے چترال کا حصہ ہیں میں باری باری ارکاری کے حوالے سے ان سب مسائل کا تزکرہ کروں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے
Print Friendly, PDF & Email