اسلام امن وسلامتی کا دین ہے

دنیا کا کوئی بھی مذہب امن کا درس دیتا ہے مگر اسلام اس حوالے سے امتیازی حیثیت رکھتی ہے۔ اسلام ہی امن وسلامتی کا دین ہے ۔اسلام کے اعلان کے ساتھ ہی بنی نو انسان کو امن وسلامتی کا پیغام دیا گیا ہے اور اس پر واضح کیا گیا ہے کہ دین اسلام میں روحانی سکون نصیب ہوتا ہے ۔ انسان کے اندر دو قسم کی بیماریاں ہائی جاتی ہیں۔ جن میں روحانی اور جسمانی بیماری شامل ہیں۔ آج کل کے دور میں ہم روحانی بیماری میں مبتلا ہیں جسکا علاج حکیموں کے پاس نہیں ہوتا ہے بلکہ دین اسلام کے اصولوں پر چلنے سے نصیب ہوتا ہے۔ چودہ سو سال پہلے اسلام کا یہی اثر تھا کہ (جہالت کے انتہا پر پہنچے ہوئے وہ لوگ جو اپنی لخت جگر پھول جیسی بچیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے اور عورت ذات کی پیدائش کو اپنے لئے باعث شرمندگی محسوس کرتے تھے ،وہی لوگ اپنی بیٹیوں کو اللّٰہ کی رحمت سمجھنے لگے اور اس سنگ دلی سے باز آگئے۔ اسلام نے جہالت کے اندھیروں سے لوگوں کو نکالا اور مختلف گروہ میں تقسیم لوگوں کو آخوت و بھائی چارے کی مظبوط رسی میں باندھ کر انھیں اتحاد و اتفاق کا درس دیا۔ فرقہ پرستی کو ختم کرکے یکجہتی کی تعلیم دی۔ آج جب ہم اپنے اردگرد ماحول پر غور کریں تو ہر طرف ظلم و ذیادتی نظر آرہی ہے ۔ ہر طرف فرقہ پسندی اور فساد و انتشار نظر آتا ہے۔ ہم نے اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر انتہا پسندی اور فرقہ پرستی کو اپنا شعار بنا لیا ہے ۔ دوسری طرف ہم نے حکم خداوندی کو چھوڑ کر پرسکون معاشرے میں بدامنی اور انتہا پسندی کو فروغ دینے میں لگے ہوئے ہیں حالانکہ اسلام تو ہمیں امن وسلامتی کا پیغام دیتا ہے۔ آج کل کے دور میں بیگناہ انسان کو قتل کیا جاتا ہے، مقتول کے ورثاء غم مناتے ہیں اور قاتل آزاد گھوم رہا ہوتا ہے۔ ورثاء انصاف کی اپیل کررہے ہوتے ہیں لیکن ” نقار خانے میں طوطے کی آواز کون سنتا ہے”۔ ہر طرف ظلم و ذیادتی نظر آرہی ہے ۔ اگرچہ کسی بے گناہ انسان خواہ اس کا تعلق کسی رنگ،نسل اور مذہب سے کیوں نہ ہو ،قتل کی ممانعت کرتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ نے یہاں تک حکم دیا کہ کہ” کسی بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کا مترادف ہے”۔ آخر وہ جو بھی ہے انسان تو ہے کیونکہ ہر انسان کو جان پیاری ہوتی ہے۔ اس دور میں لوگ سر عام دہشت پھیلا رہے ہیں ، اکثر لوگ چھوٹ موٹ میں عوام میں خوف و ہراس پھیلا کر انکا چین چھین لیتے ہیں۔ جس سے معاشرے میں بدامنی اور بے چینی کی فضاء پیدا ہوتی ہے۔ حالانکہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے وقت حملہ کرنے سے پہلے جو ہدایات فرمائیں وہ مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہونی چاہیئے۔ آپؐ نے فرمایا کہ” بچوں، عورتوں، کمزوروں اور ضعیف العمر پر ہاتھ نہ اٹھاؤ اور ساتھ ساتھ درختوں اور جانوروں کو بھی نقصان نہ پہنچائیں، خانہ کعبہ میں پناہ لینے والوں کو بھی سلامتی بخشی جائے، یہاں تک کہ میدان جنگ کے دوران جو ہتھیار ڈال دے انکی سلامتی کا بھی خیال رکھا جائے۔ پیارے بھائیو! یہ ہیں اسلام کے وہ تعلیمات جن کو ہم نے پس پردہ رکھا ہے اور منفی سوچ کی بنیاد پر اپنے مسلمان بھائیوں کا سکون چھین لیا ہے ۔ اس نوعیت کے فعل سے ہمارے محلے ، شہر اور سماج میں تفرقہ پیدا ہورہا ہے ، بے گناہ لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے ،بدامنی کی فضاء پیدا ہوتی ہے جسکی وجہ سے ہماری تعلیمی سرگرمیاں بھی بری طرح متاثر ہورہی ہیں ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہم نے دین اسلام کے اصولوں کو پس پشت ڈالا ہے۔ ہماری ناکامی کی اصل وجہ بھی یہی ہے ۔ اگر ہم دین اسلام کے تعلیمات پر عمل پیرا ہوگئے تو زندگی کی گاڑی ہمیں سلامتی سے منزل تک پہنچائے گی ۔ دین اسلام بھی ہمیں امن وسلامتی کا درس دیتا ہے ۔ اسلئے ضروری ہے کہ ہم اس پیغام کو سمجھ کر اپنے خطے کو امن وسلامتی کا گہوارہ بنانے کی کوشش کریں تاکہ ہماری آنے والی زندگی اور نسلیں محفوظ رہ سکیں۔

Print Friendly, PDF & Email