معمار قوم

والدین بچے کی پیدائش کے بعد اْس کو تمام بنیادی ضروریاتِ زندگی فراہم کرتے ہیں ،اْس کے لیے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ پیار و محبت سے پرورش کرنے کے بعد اْس عظیم ہستی کے حوالے کرتے ہیں جو اْس کی رہنمائی کرکے معاشرے کا باعزت فرد بنادیتا ہے۔ وہ عظیم ہستی اْستاد ہی ہوتا ہے۔ انسانی تہذیب و تمدن کا سارا ارتقاء اور بچے کو فنون لطیفہ سے لے کر سائنسی علوم تک رسائی دینے میں اْستاد ہی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اْستاد ماضی کے علمی ،ادبی ،فنی و سائنسی علوم کا وارث ہوتا ہے اورِ اس ورثے کو وہ آنے والے بچوں میں منتقل کرکے اْ ن کے مستقبل کی ترقی کے لیے راہ ہموار کر دیتا ہے۔ وہ اپنے شاگردوں میں ادبی،ثقافتی اور سائنسی علوم میں تحقیق کرنے کی صلاحیت پیدا کردیتا ہے جس کی بدولت وہ ایک منظّم اور باعزت شہری بن کر میدان میں اتر آتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ جو قوم اپنے اساتذہ کرام کو معاشرے میں عزت دی ہے وہی قومیں معاشرے میں کامران و کامیاب ہوئی ہیں۔ اس کے برعکس جو قوم اپنے اساتذہ کا احترام نہیں کرتی انہیں وہ عزت نہیں دیتی جو اس کا اصل حقدار ہے،وہ قوم مذہبی، سیاسی،ثقافتی،اقتصادی،اور تعلیمی اعتبار سے ہمیشہ پیچھے رہی ہے۔ ہمارا مذہب دین اسلام بھی ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ "جس شخص نے مجھے ایک لفظ بھی سکھایا وہ میرا استاد ہے”۔ مغربی ممالک میں استاد کو "معمار قوم ” کا خطاب دے کر اْس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اْمراء سے رْؤساء تک اْستاد کے احترام میں آٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکنِ اس دور میں استاد کو وہ مقام نہیں دیا جا تا ہے جو اْس کا اصل حق ہے۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ اگر کہیں پر استاد بیٹھا ہوا ہو تو شاگرد سلام کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ سفر کے دوران کوئی اْستاد گاڑی میں سوار ہو اور بیٹھنے کے لیے نشست خالی نہ ہو تو مسافروں کو یہ احساس بھی نہیں ہوتا ہے کہ اْٹھ کھڑے ہو کر اْن کے لیے نشست خالی کی جائے حالانکہ استاد معاشرے کا ایک عظیم فرد ہوتا ہے۔ِ اس کی وجہ یہ ہے کہ استاد عام طور پر بچے کا آئیڈیل ہوتا ہے، چنانچہ اگر طالبعلم کا نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ اس نے اپنے کسی نہ کسی استاد کا اندازِ فکر اپنایا ہوا ہوتا ہے۔ اگر موجودہ اور ماضی کی تعلیم پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا۔ درس وتدریس سے وہی لوگ وابستہ رہے ہیں ،جنہیں عزت،شْہرت،نام ونموْد کی خواہش نہیں تھی۔ لہٰذا اس دور میں استاد کو وہی مقام دوبارہ دلوانے کے لیے ایسے اقدامات کئے جائیں تاکہ اساتذہ کرام کو معاشرے میں عزت کا مقام حاصل ہو۔ یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ وہ "معمار قوم” بن کر آنے والی نسلوں کی فلاح و بہبود اور بہتر ی کے لیے اْنکے مستقبل بنانے میں اہم کردار ادا کر سکیں۔س نقصان کے آزالے کا مطالبہ کیا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email