اداریہ

یہ اداریے زیل نیٹ ورک نیوز کے خیالات کی ترجمان کے طور پر زیل نیوز میں شائع کئے جاتے ہیں۔ اگر آپ اس پر تبصرہ کرنا چاہتے ہیں توہمیں ای میل کرسکتے ہیں۔ آپ اپنی رائے اداریے کے نیچے کمنٹ کے طور پر بھی دے سکتے ہیں

قاق لشٹ فیسٹیول ادبی و ثقافتی تنظیمات کا بائیکاٹ

روایتی قاقلشت فیسٹیول روایات کو پامال کرتے ہوئے اپنے اختتا م کو پہنچا ہے ۔ ۱۲ اپریل سے ۱۵ اپریل تک جاری رہنے والے چار روزہ فیسٹیول میں مقامی ثقافت کی جگہ غیر مقامی ثقافت کو فوقیت دی گئی ۔چترال کی چھ ادبی اور ثقافتی تنظیموں نے انتظامیہ کو بروقت آگاہ کیا اور شکایات  کا آزالہ نہ ہونے کی صورت میں فیسٹیول کا بائیکاٹ کیا  مگر انتظامیہ نے اپنی ضد جاری رکھی ۔گزشتہ ایک دہائی سے یہ روایت قائم کی گئی  ہے کہ صوبائی حکومت اگر کسی جشن یا ثقافتی سرگرمی کے لیے مالی وسائل مہیا کرتی ہے تو فنڈنگ کے ساتھ  شرط لگا تی ہے کہ اس فنڈکا فائدہ  مقامی آبادی کو نہیں ملے گا  بلکہ باہر سے آنے والے مہمان اس فنڈنگ سے استفادہ کریں گے ۔اس پالیسی کے تحت کالاش تہوار کے لیے باہر سے فنکار بلائے جاتے ہیں ۔شندور فیسٹیول کے لیے باہر سے فنکار وں کو بلایا جاتا ہے ۔ اس سال پہلی بار قاقلشٹ فیسٹیول میں غیر مقامی مہمانوں کو متعارف کرایا گیا ۔ آئندہ بروغل فیسٹیول میں غیر مقامی لوگوں کو ترجیح دی جائے گی ۔ اس حوالے سے انجمن ترقی ٔ کھوار، مادر ٹانگ انیشیٹو فار ایجوکیشن اینڈ ریسرچ چترال(میئر) کھوار قلم قبیلہ ،کھوار اہل قلم ،نان دوشی سکول آف ٹرڈیشنل آرٹس،سہارا اور چترال یوتھ کلب نے مل کر ثقافت و ادب کے ساتھ اس ظلم کے خلاف آواز اُٹھائی  اور اپنا بھر پور احتجاج ریکارڈ کروایا  اور انتظامیہ کو باور کرایا کہ مقامی آبادی کی نمائندگی کے بے غیر کوئی بھی  ثقافتی پروگرام کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اس موقع پر یہ افسوسناک بات بھی سامنے آگئی کہ صوبائی حکومت غیر متعلقہ لوگوں کو فنڈ مہیا کرکے اس میں سے اپنا حصہ وصول کرتی ہے ۔ چترال کی ادبی ،ثقافتی اور سماجی تنظیموں نے اپنا احتجاج ریکارڈ پر لایا ہے ۔ آئندہ اس طرح  کی نا انصافی کو برداشت نہیں کی جائے گی ۔ہمارا یہ موقف ہے کہ ضلعی سطح کی ثقافتی تقریبات میں مقامی ادب و ثقافت کو جگہ دی جائے اور مقامی ادبی و ثقافتی تنظیموں کو اعتماد میں لیا جائے ۔

چترال یونیورسٹی میں عالمی کانفرنس

چترال یونیورسٹی میں منعقدہ ہونے والی انٹر نیشنل بوٹانیکل کانفرنس سال ۲۰۱۸ کی پہلی سہ ماہی میں چترال کو عالمی سیاحت کے نقشے پر نمایاں کرنے والا تحفہ ہے ۔ اس تحفے کے لیے ہم چترال یونیورسٹی کی انتظامیہ ،خصوصاً پراجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری اور ان کی ٹیم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں ۔علم نباتات کے حوالے سے منعقد ہونے والی اس اہم کانفرنس کی تین نمایاں خصوصیات ہیں۔پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں یورپ اور ایشیاء کی ممتاز یونیورسٹیوں کے نامور ماہرین ِ نباتات نے شرکت کی۔دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کانفرنس نے چترال کی نباتات کو کمپیوٹر نیٹ ورک کے ساتھ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا سے متعارف کرانے پر توجہ دی اور تیسری خصوصیت یہ ہے کہ چترال یونیورسٹی نے اپنے قیام کی سالگرہ ۳۱ مارچ ۲۰۱۸ کو ایک بین الاقوامی کانفرنس کے آخری روز فاؤنڈیشن ڈے بھی منایا۔ان خصوصیات کے ساتھ ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ کانفرنس کے شرکاء میں پاکستان کی چھ یونیورسٹیوں کے سابقہ اور موجودہ وائس چانسلروں نے شرکت کی۔علم نباتات کے حوالے سے ضلع چترال کی اہمیت کو پوری دنیا کے ماہرین نے تسلیم کیا ۔چترال میں نباتات کی چونسٹھ ایسی انواع پائی جاتی ہیں جنہیں اینڈمیک کہا جاتا ہے یہ وہ انواع ہیں جو چترال کی مٹی اور آب و ہوا کے ساتھ مخصوص ہیں ۔دنیا کے کسی اور خطے سے پہلے چترال میں ان کو اگایا گیا ۔ پرورش و پرداخت کی گئی ۔”چوپوش” نامی سیب اور "شوغوری” نام کی ناشپاتی ایسی انواع کی مثالیں ہیں ۔ چترال یونیورسٹی کی علمی کاوش اور تحقیقی کوشش سے اگر چترال کی نباتات ،نباتاتی ادویہ اور پھولوں ،پھلوں کو بین الاقوامی مارکیٹ تک پہنچایا گیا اور طبی نباتات کو حقیقی معنوں میں دریافت کرکے ان پر مزید تحقیق کی راہ ہموار کی گئی تو یہ بہت بڑا کام ہوگا۔ اس کام کے ذریعے علم و تحقیق کی ابیاری کے ساتھ ساتھ معیشت کو بھی سدھارنے کے مواقع ہاتھ آئیں گے۔

پشاور میں چترال کے اڈے

پشاور میں چترال کے اڈے کئی سالوں سے عوام کے لیے پریشانی، کوفت اور مصیبت کا سبب ہوئے ہیں۔ یہ اڈے پشاور کے گمنام شہر کی گلیوں میں بنائے گئے ہیں۔کئی جگہوں پر ٹکٹ دیتے ہیں اور شام ۶ بجے سے رات ۸ بجے کے درمیان مسافر گاڑیوں کو پشاور سے نکالتے ہیں۔ یہ گاڑیاں صبح ۱۰ بجے تک دیر اور لواری میں روک لی جاتی ہیں۔ جو بیمار، بوڑھے، خواتین، بچے اور بچیاں شام ۶ بجے گاڑیوں میں اپنا سفر شروع کرتی ہیں۔ وہ راستے میں تکلیف اور عذاب میں رات گزارتی ہیں۔ لواری ٹنل کھلنے سے پہلے بھی چترال کے عوام نے بار بار مطالبہ کیا ہے کہ پشاور سے رات کے وقت کوئی گاڑی چترال کے لیے نہ نکالی جائے۔ اور تمام اڈہ مالکان کو صبح کے وقت گاڑیاں بھیجنے کا پابند کیا جائے۔ جیسا کہ چترال کے اڈوں میں رات کے وقت پشاور کے لیے گاڑی نکالنے کی اجازت نہیں ہے اس طرح پشاور کے اڈوں سے رات کے وقت گاڑی بھیجنے کی اجازت نہ دی جائے۔ رات کو ڈرائیوروں کی نیند کی وجہ سے کئی خطرناک حادثے بھی ہوچکے ہیں۔ مگر رات کے وقت سفر پر پابندی نہیں لگائی گئی۔ پشاور میں ڈ ی آئی خان، سوات، دیر، کوہستان اور دوسرے تمام اضلاع یا علاقوں کے لیے باقاعدہ اڈے موجود ہیں جو قانون کے پابند ہیں۔ جہاں سے صبح کے اوقات میں گاڑیاں نکلتی ہیں۔ پشاور سے چترال کا سفر ۸ گھنٹے کا سفر ہے۔ یہ سفر صبح ۶ بجے سے سہ پہر دو بجے تک کا وقت لیتا ہے۔ مسافروں کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹروں کیلئے بھی اس میں سہولت ہے۔ آخر وہ کونسی مجبوری ہے جس کی وجہ سے پشاور کے اڈہ مالکان رات کے وقت گاڑیاں بھر بھر کر چترال کے لیے روانہ کرتی ہیں؟ ایک افواہ گردش کررہی ہے، اللہ کرے یہ محض افواہ ہو۔ اڈہ مالکان کا دعوی ہے کہ صبح کے وقت ٹریفک پولیس چیکنگ کر کے اڈہ مالکان کو تنگ کرتی ہے۔ اس لیے رات کی تاریکی میں گاڑیوں کو بآسانی نکالا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اڈہ مالکان کوئی غیر قانونی اور ناجائز کام نہیں کرتے تو ٹریفک پولیس کی چیکنگ سے کیوں ڈرتے ہیں۔ اگر ان کا دامن صاف ہے تو دن کی روشنی میں سفر کی جگہ مسافروں کو رات کی تاریکی میں عذاب میں گرفتار کرنے کی کیا تک بنتی ہے؟ چترال کی انتظامیہ اور پشاور کی ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ ٹریفک پولیس کے حکام سے بھی ہماری التجا ہے کہ پشاور سے چترال کے لیے چلنے والی تمام گاڑیوں کو صبح ۶ بجے سے پہلے نکلنے کی اجازت نہ دی جائے اور پشاور کے اڈے مالکان کو اس قانون کی پابندی پر مجبور کیا جائے۔ چترال کے مسافروں کو محفوظ اور پرسکون سفر کی سہولت دینے کے لیے یہ کام بے حد ضروری ہے۔

پارٹی میں گروہ بندی

حکمران جماعت میں پاکستان تحریک انصاف ضلع اپر چترال میں گروہ بندی کی خبروں سے جمہوریت پسند حلقوں کو تشویش اور پریشانی ہوتی ہے۔ چیئرمین عمران خان نے اپر چترال کو ہمیشہ اہمیت دی ہے1996ء میں چترال کے دورے پر آئے تو انہوں نے اپر چترال کے ہیڈکوارٹر بونی میں سماجی شخصیات، عمائدین اور سیاسی کارکنوں سے خصوصی ملاقات کی۔2015ء کے سیلاب میں متاثرین سے ہمدردی اور نقصانات کے ازالے کے لیے پھر اپر چترال کا خصوصی دورہ کیا، کوراغ اور بونی میں عوام سے خطاب کر کے ان کی دلجوئی کی۔ یہ عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ عوام کی محبت کا نتیجہ تھا کہ 2013ء کے انتخابات میں این اے 32 میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کو26ہزار ووٹ ملے اور جنرل مشرف کی مقبول جماعت کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر رہے۔ باقی اہم سیاسی جماعتیں تیسرے اور چوتھے نمبر پر آئیں۔ ۵ سال حکومت، عوام کی خدمت اور بے پناہ مقبولیت کے بعد اپنے ترقیاتی وژن، ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل اور بہترین نظم ونسق کو بنیاد بنا کر پاکستان تحریک انصاف چترال میں ناقابل شکست طاقت بن کر ابھری ہے۔ خصوصا چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کر کے1969ء میں چھینا ہوا ضلع اپر چترال بحال کرنے کے بعد بالخصوص اور پورے چترال بالعموم پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور پارٹی 2018ء کے انتخابات میں وکٹری سٹینڈ پر علاقے کی تین بڑی جماعتوں کے روبرو نظر آتی ہے۔ خصوصا اپر چترال کو ضلع کا درجہ دینے کے بعد ملازمتوں کے مواقع اور ترقیاتی منصوبوں کے متوقع امکانات نے پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت میں مزید اضافہ کیا ہے۔ ان حالات میں پارٹی کے اندرونی انتشار اور باہمی اختلافات کا فائدہ پارٹی کے مخالفین کو ہوگا۔ اختلافات کے بعد ایک گروہ کا یہ کہنا کسی بھی طور پارٹی کے مفاد میں نہیں کہ ضلع کا اعلان جھوٹ تھا۔ اپر چترال ضلع نہیں بنا۔ یہ بات پی ٹی آئی کے مخالفین پہلے سے کہتے آئے تھے ۔اب پارٹی کا ایک دھڑا بھی دعویٰ کر رہا ہے کہ حکومت نے اپر چترال کو ضلع نہیں بنایا۔ مزید ایسی باتیں ایک دوسرے کے خلاف کی جارہی ہیں جنہیں ہم دوہرانا نہیں چاہتے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پچھلے ۵ سالوں میں چترال کے عوام کی جو خدمت کی ہے۔ اس کے بدلے میں2018ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے نمائندوں کو اگر اسمبلی میں پہنچانا ہے۔ تو اختلافات کو بھلا کر پارٹی کو ایک بار پھر متحد کرنا ہوگا۔ جمہوریت پسندوں کا یہی مشورہ ہے۔

چھوٹے پن بجلی گھروں کا مستقبل

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ہاتھوں4فروری 2018ء کو چترال میں گولین گول ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے نام سے 108 میگاواٹ بجلی گھر کے پہلے یونٹ کی 36 میگاواٹ بجلی کا افتتاح ہونے کے بعد چترال کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے چھوٹے پن بجلی گھروں کا مستقبل خطرے کی زد میں آگیا ہے۔
وزیر اعظم نے اس موقع پر اعلان کیا کہ نئے بجلی گھر سے پورے چترال کو بجلی دی جائے گی۔کوئی گھر اور کوئی محلہ اس بجلی سے محروم نہیں ہوگا۔ساتھ ساتھ یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ چترال پیسکو واحد تقسیم کا ر کمپنی ہوگی۔پیڈو کی ناکارہ لائینوں کا انتظام بھی پیسکو کے ہاتھوں میں دیا جائے گا۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ 1986ء سے 2017 ء تک چترال کی 32 وادیوں اور دور دراز علاقوں میں 50کلوواٹ سے لے کر 700کلوواٹ تک صلاحیت کے چھوٹے پن بجلی گھر لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بنائے گئے تھے اور کمیونیٹی کی ذمہ داری پر چل رہے تھے۔ان بجلی گھروں کی بجلی ،کمروں کی گرمائش اور کھانا پکانے سے لے کر آرہ مشین ،ویلڈنگ مشین اور آٹا مشین جیسی ٹیکنالوجیز میں بھی استعمال ہوتی تھی۔محمد خان اینڈ کمپنی کا 600کلوواٹ بجلی گھر لوگوں کی ضروریات پوری کرتا تھا۔کل ملا کر 12 میگاواٹ کے قریب بجلی ان چھوٹے بجلی گھروں سے پیدا ہوتی ہے۔ان بجلی گھروں کے ڈیزائن اور ان کے انتظام و انصرام پر آغاخان رورل سپورٹ پروگرام اور سرحد رورل سپورٹ پروگرام کو بین الاقوامی اعزازات یا ایوارڈز دئیے گئے تھے۔ کیا اب یہ سب کچھ وقت کے سیلاب میں بہہ جائے گا ؟
ترقی کی پائیدار حکمت عملی کا تقاضا یہ تھا کہ گولین گول کا 108 میگاواٹ بجلی گھر تیار ہونے سے پہلے چھوٹے پن بجلی گھروں کی بجلی گرڈ میں لائی جاتی اور یہ بجلی کے تقسیمی نظام کے ذریعے صارفین کو دینے کے لیے یوٹیلیٹی کمپنیوں کا معاہد ہ ہوجاتا ہے۔ اس طرح برسوں کی محنت ضائع نہ جاتی۔ اب بھی وقت ہے کہ اے کے آر ایس پی،ایس آر ایس پی اور محمد خان اینڈ کو سمیت تمام یوٹیلیٹی کمپنیوں کو ایک میز پر لا کر چھوٹے پن بجلی گھروں کی بجلی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے منصوبہ بندی کی جائے تو یہ سارے بجلی گھر مستقبل میں محفوظ ہونگے۔بجلی بھی ایک نعمت ہے ،ایک اثاثہ ہے۔جس طرح ایک ایک پائی کی بچت سے دولت بنتی ہے اس طرح بجلی کی ایک ایک یونٹ کو بچا کر ہم توانائی میں خوود کفالت کی منزل کو پاسکتے ہیں۔
اس طرح ریشن ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی 4 میگاواٹ بجلی کو بھی بحال کر کے گرڈ میں شامل کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ اس میں غفلت کے نتائج اچھے نہیں ہونگے۔ اْمید ہے کہ ضلعی حکومت، ضلعی انتظامیہ ،عوامی نمائندے اور سول سوسائٹی کے ذمہ دار چھوٹے پن بجلی گھروں کا مستقبل محفوظ بنانے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں گے۔

گولین گول کی بجلی اور ہمارامستقبل

یہ خوش آئند بات ہے کہ چترال میں گولین گول کا 108میگاواٹ پن بجلی گھر واپڈا نے 33سال محنت کے بعد تکمیل کے قریب پہنچا دیا ہے اور 36میگاواٹ کا پہلا یونٹ تیار ہو گیا ہے۔ 1985ء میں بجلی گھر کی منصوبہ بندی اور 1987ء میں اکنیک(ECNEC )سے اس کی منظوری کے بعد 2018ء میں پہلا بلب روشن ہونے تک 33سالوں میں واپڈا کے ساتھ چترال کا تجربہ بے حد تلخ رہا۔کالونی کے لیے بنجر زمینوں کو آباد کرنے کی جگہ لہلہاتے کھیتوں اور باغوں کو تباہ کیا گیا۔ سوئچ یارڈ کے لیے پھر گاؤں کے خوبصورت مناظر کو برباد کر دیا گیا۔ملازمتوں میں مقامی لوگوں کو ترجیح دینے کا وعدہ پورا نہیں ہوا۔ ماڈل سکول اور ہسپتال کے قیام کا وعدہ بھی پورا نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ منصوبے کے لیے ماحولیاتی جائزے کے وقت زمینوں کے لیے مارکیٹ ریٹ کے مطابق معاوضہ دینے کا وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا۔ بجلی گھر کا ایک حصہ مکمل ہونے کے بعد بعض حلقوں کی طرف سے سیاستدانوں اور واپڈا حکام کا شکریہ ادا کیا جارہاہے جو ہر لحاظ سے بے جا اور زمینی حقائق کے خلاف ہے۔ واپڈا ہاؤس لاہور کے ذرائع اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ 1961ء میں جب فیلڈ مارشل ایوب خان بجلی کے منصوبوں کا سروے کرایا تو چترال میں 26ہزار میگاواٹ کے منصوبوں کا سروے ہوا۔ گولین گول ان میں شامل تھا اور اس کی گنجائش 4ہزار میگاواٹ تھی۔ زندوڑی ،سین ڈوک اور گہریت کے منصوبے بھی اس میں شامل تھے۔1984ء میں جرمن انجینئروں نے چترال کا سروے کرکے لاسپور،تریچ،یارخون،لوٹ کوہ اور شیشی کوہ سمیت 41ہزار میگاواٹ منصوبوں کی نشاندہی کی تھی۔ ہماری طرف سے شکریہ ادا کرنے کا جواز اسی وقت بن جاتا جب 26ہزار یا 41ہزار میگاواٹ بجلی چترال میں پیدا کی جاتی۔ 108میگاواٹ تو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر بھی نہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ درگئی میں ملاکنڈ کے عوام کے ساتھ ایک روپیہ فی یونٹ کے حساب سے فیلٹ ریٹ پر بجلی دینے کا معاہدہ کیا گیا ہے۔یہ مقامی لوگوں کی تکالیف کا ازالہ اور مقامی پانی کے استفادہ کنندگان کے لیے مراعات/ریالٹی کا حصہ ہے۔دوسروں جگہوں پر بھی مقامی آبادی کے لیے اس طرح کی مراعات کی مثالیں موجود ہیں۔چترال کے عوام 12روپے یا 18روپے یونٹ کے نرخ پر گھریلو استعمال کی بجلی کا بل ادا کرنے کی استعداد نہیں رکھتے کیونکہ بجلی آنے کے بعد بل میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس لیے اب وقت ہے کہ چترال کے عوام ،بجلی صارفین،سیاسی اور سماجی رہنما یک زبان ہوکر مقامی آبادی کے لیے ایک روپیہ یونٹ یا کم ازکم پیداواری لاگت پر بجلی دینے کا مطالبہ کریں ۔واپڈا حکام کے ساتھ اس مطالبے پر تحریری معاہدہ ہوجائے تو چترال کے لیے خوش خبری اور فتح کامرانی ہوگی۔اس مطالبے سے ہمارا مستقبل وابستہ ہے۔

چترال پولیس کا کریک ڈاؤن

یہ بات بے حد قابل تعریف ہے کہ چترال پولیس نے غیر قانونی گاڑیوں،نابالغ اور بغیر لائسنس گاڑی یا موٹر سائیکل چلانے والے ڈرائیوروں اور منشیات کے اڈے چلانے والے سماج دشمن گروہوں کے خلاف کامیاب کریک ڈاؤن کیا ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں سے مسلسل ایسی خبریں آرہی ہیں جوچترال پولیس کی اچھی کارکردگی پر دلالت کرتی ہیں۔اس بات کی صداقت میں شک نہیں کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی اور منشیات کا غیرقانونی کاروبار مقامی پولیس کے تعاون کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ عوامی رائے عمومی طور پر یہ ہے کہ جتنے غیر قانونی دھندے ہیں سب پولیس کی اشیرباد سے چلتے ہیں۔ کسی بھی چھاپے کی پیشگی اطلاع پولیس کی طرف سے دی جاتی ہے۔ کسی بھی ناکے پر ملزموں کو پولیس کے تعاون سے آگے بڑھنے کا موقع ملتاہے مگر چترال پولیس کی تازہ ترین کاروائیاں اس عوامی تاثر کی نفی کرتی ہیں۔ پولیس نے نہ صرف منشیات کے کاروبارمیں ملوث افراد یا گروپوں کے خلاف کامیاب اپریشن کیا ہے بلکہ ٹریفک کے نظام میں کئی سالوں سے جاری بے قاعدگیوں کے خلاف بھی فیصلہ کن قدم اٹھایا ہے۔ خصوصاًنابالغ ڈرائیوروں اور بغیر لائسنس گاڑی یا موٹر سائیکل چلانے والوں کے خلاف ٹریفک پولیس کی جگہ جگہ ناکہ بندی کا بڑا فائدہ اٹھایا ہے۔ بازار میں ٹریفک پولیس کی اعلیٰ کارکردگی کو محسوس کیا جارہا ہے۔دور دراز دیہات میں بھی عوام کی طرف سے پولیس کو داد دی جارہی ہے۔اگر چترال پولیس نے سماج دشمن عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن اسی طرح جاری رکھا تو بہت جلد چترال کو منشیات کی لعنت سے پاک کرنے میں مدد ملے گی اور ٹریفک کے نظام میں بھی نمایاں تبدیلی آئے گی۔

نیا ضلع اور نئی تحصیلیں

صوبائی کابینہ نے اپر چترال کو ضلع کا درجہ دینے کی منظوری دی ہے۔ صوبائی حکومت دروش ، تور کھو ،موڑکھو میں نئی تحصیلوں کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے لوٹ کوہ کو بھی تحصیل کا درجہ دینے کا اعلان کیا تھا ابھی تک اس کا نوٹیفیکیشن نہیں آیا۔ اگر حا لات جوں کے توں رہے اور 2018 ء کے الیکشن سے پہلے ایک نیا ضلع اور تین نئے تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن وجود میں آگئے تو ضلع چترال میں ترقی کے بے شمار مواقع پیدا ہونگے،8ہزار نئی آسامیاں پیدا ہوں گی۔عوام کے مسائل ان کے گھر کی دہلیز پر حل ہونگے۔ اب تک لوگ مشرف اور بھٹو کو یاد کرتے تھے آگے جاکر عمران خان اور پرویز خٹک کو بھی اسی طرح یاد کریں گے تاہم شرط یہ ہے کہ ان کے اعلانات پر عمل درآمد ہوتا ہوا نظر آئے ۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ موجودہ حکومت کی مدت 5 ماہ رہ گئی ہے ۔ جنوری کے اختتام پر 4ماہ رہ جائیں گے ۔ صوبائی سطح پر سول بیوریو کریسی حکومت کا ساتھ دینے اور وزیر اعلیٰ کے اعلانات کو عملی جامہ پہنانے پرآمادہ نظر نہیں آتی ۔ ریشن کے بجلی گھر کی بحالی کا مسئلہ ڈھائی سالوں سے تعطل کا شکار ہے۔ریسکیو 1122 کا اعلان ہوا تھا،صوبائی سطح کی بیوریو کریسی نے چترال کو ریسکیو 1122کی سروس دینے میں اب تک لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔نئے ضلع اور تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کے اعلانات کو عملی صورت دینے میں بیوریو کریسی کی رکاوٹیں موجود ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو ان رکاوٹوں کا احساس اور اندازہ نہیں ہے۔دیگر سیاسی جماعتوں کو یہ رکاوٹیں اچھی طرح معلوم ہیں مگر وہ پی ٹی آئی کو ناکام دیکھنا چاہتی ہیں ، اس لیے خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں۔حکومت کے سامنے چترال کے لیے اعلان کردہ اقدامات کو عملی شکل دینے کا روڈمیپ بھی ہونا چاہئیے۔ روڈ میپ کی رو سے فروری کے پہلے ہفتے اپر چترال کے ڈپٹی کمشنر کا تقرر ہونا لازمی ہے۔تینوں تحصیلوں کے لیے افسروں کا تقرر ضروری ہے۔ ریشن بجلی گھر کی مشینری آنی چاہئیے۔ ریسکیو1122کاکم ازکم ایک ٹیلیفون،ایک دفتر اور ایک فائر بریگیڈ یا ایمبولینس نظر آنا چاہئیے۔مارچ سے لیکر جون تک تمام اقدامات کی جھلک عوام کو نظر آنا چاہئیے،ورنہ مخالفین کا وہ الزام درست ثابت ہوگا کو یہ اعلان نہیں محض”لولی پاپ”تھا۔

گولین بجلی گھر کی کشمکش

گولین گول پر 108میگاواٹ کا بجلی گھر 1987ء میں منظور ہوا تھا، اس پر کام 2012ء میں شروع ہوا ۔ 2017ء اس کی تکمیل کا سال تھا جو گزر گیا۔ 2018ء کی تازہ خبر یہ ہے کہ 108میگا واٹ میں 36میگا واٹ بجلی اس سال گرڈ تک لائی جائے گی اور چترال کے صارفین کو دی جائے گی۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ جنوری کے مہینے میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اس کا باقاعدہ افتتاح کریں گے۔ اس خبر کے ساتھ ساتھ ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ گولین کے لوگ احتجاج کرکے بجلی گھر کو بند کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ دوسری خبریہ ہے کہ مستوج، موڑکھو ، تورکھواور کوہ کے عوام احتجاجی جلوس نکال کر روڈ بند کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ گولین کے عوام ملازمتوں میں حق مانگتے ہیں اور مفت بجلی بھی مانگتے ہیں۔مستوج، موڑکھو، اورتورکھو کے عوام بجلی کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یوں بجلی گھر تیار ہونے سے پہلے افراتفری پیدا ہوگئی ہے۔ چترال کے عوام کو یک زبان ہوکر حکومت سے مفت بجلی کا مطالبہ کرنا چاہئیے تھا تاکہ درگئی ملاکنڈ اور گلگت کی طرح چترال کو بھی مفت یا ایک روپیہ یونٹ کی برائے نام قیمت پر بجلی مل جاتی مگر اپر چترال اور لوئر چترال کی کشمکش نے عوام کے اجتماعی مطالبے کو دبا دیا ہے۔ ابھی وقت ہے کہ عوام اتفاق رائے سے مفت بجلی کا مطالبہ کریں اور اپنا مطالبہ منوائیں۔

ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال کی حالتِ زار

سوشل میڈیا پر ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتال چترال میں کوڑا کرکٹ کے ڈھیر اورسیوریچ لائنوں کی خرابی کے ساتھ غسل خانوں کی ناگفتہ بہہ حالت کی تصاویر آنے کے بعد حکومت کی طرف سے کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی نے ڈی ایچ کیو ہسپتال کی حالت ِ زار کی طرف حکومت کی توجہ دلائی ہو۔پہلے بھی سماجی ، سیاسی اورعوامی حلقوں نے مختلف ذرائع سے حکومت کی نوٹس میں یہ بات لائی ہے کہ ضلع چترال کا سب سے بڑا سرکاری ہسپتال بد انتظامی اور عدم توجہی کی مثال بن چکا ہے اور صحت کی سہولیات کے حوالے سے حکومت کے دعوﺅں کی نفی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ہسپتال کے غسل خانے بند پڑے ہیں اور سیوریج لائنیں خراب ہیں۔ہسپتال کے فضلے کو ٹھکانے لگانے کا کوئی معقول انتظام نہیں۔اگر ظاہر خرابیوں کا یہ حال ہے تو اس کے کلینکس، وارڈز ،لیبارٹریز اور دیگر سہولیات کا کیا حال ہوگا؟ یہ حقیقت ہے کہ چترال کی منتخب قیادت،کسی ایم این اے،ایم پی اے یا ضلعی ناظم نے کبھی ڈی ایچ کیو ہسپتال کی طرف توجہ نہیں دی۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ صوبائی حکومت کا کوئی افسر ڈی ایچ کیو ہسپتال کا اچانک معائنہ کبھی نہیں کرتا۔ صوبائی حکومت کو ہسپتال کے اندرونی نظم و نسق کے بارے میں درست رپورٹیں کوئی نہیں بھیجتا۔ اس وجہ سے 2006 ءمیں کیٹیگری بی کا درجہ ملنے کے باوجود اس ہسپتال کو کٹیگری سی کی سہولیات بھی نہیں دی گئیں۔کارڈیالوجی ، آئی یونٹ اور برن یونٹ کی عمارتیں مکمل ہونے کے باوجود بند پڑی ہیں۔یورالوجی اور ارتھو پیڈکس یونٹ پر توجہ نہیں دی گئی۔کوڑا کرکٹ کو جلانے کے لیے مشین لائی گئی لیکن اس کو جلانے کا بجٹ نہیں ہے۔ سیوریج لائنوں کی مرمت کے لیے فنڈ نہیں ہے۔ان سطور کے ذریعے ارباب اختیارکی خدمت میں درخواست ہے کہ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال چترال میں صفائی کا انتظام بہتر بنائیں۔سیوریج لائینوں کی مرمت اور انتظامی مسائل کو حل کرنے کے لیے خصوصی ٹاسک فورس قائم کریں۔نیز کارڈیالوجی ،آئی اور برن یونٹ کو کھولنے کے لیے اسپیشلسٹ ڈاکٹر اور اسٹاف مہیا کرنے کے لیے بالائی حکام کی نوٹس میں لے آئیں۔ بقول شاعر

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خا ک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک